5,613

آزادی ، دفاع، عزت و سربلندی کا طریقہ کار

آج دنیا میں کامیابی ، عزت اور وقار’’ معیشت کی مضبوطی اور اقتصادی خوشحالی ‘‘ کو سمجھا جاتا ہے۔عزت و احترام اور اعزاز و سربلندی کا واحد ذریعہ مال و دولت اور مادی وسائل کی کثرت رہ گیا ہے، بلندیِ اخلاق، پختگی کردار، شرافتِ نفس اور تقویٰ و طہارت کی کوئی قدر و منزلت ہی نہیں رہی۔ حد تو یہ ہے کہ ایک بدتر سے بدترانسان جو شرابی، زانی، جوئے باز، فاسق و فاجر ، بدکار، حدودِ اخلاق و شریعہ کو اعلانیہ توڑنے والاہے اگر مال و دولت ، مادی وسائل اور آسائشاتِ زندگی رکھتا ہے تو وہ معاشرہ میں معززومحترم اور ممتاز مانا جاتا ہے اور ایک دوسرا شخص خواہ کتنا ہی شریف النفس ، صاحب اخلاق ، بلند کردار ، متقی و پرہیزگار اور خدا ترس و فیاض ہو اس کی معاشرہ میں کوئی وقعت (قدرو منزلت ) نہیں۔ محض اس لیے کہ اس کے پاس مال و دولت دوسروں کے مقابلہ میں کم ہے۔ انسانی اوصاف سے قطع نظر ہو کر بدمعاش ، شرابی ، زانی، جوئے باز ، کرپٹ، فاسق و فاجر، انسان نما درندے کو محض اس لیے عزت و احترام کا مستحق قرار دیناکہ وہ ریشم و حریر میں ملبوس ہے، کثیر مقدار میں مال و زر رکھتا ہے تو یہ کام تو عقل کے اندھوں اور انسان نما جانوروں ہی سے ہو سکتا ہے۔
ہمارے حکمران، سیاستدان، دانشور ، پڑھے لکھے طبقے کے لوگ عموماً یہ تبصرے کرتے ہیں کہ اقتصادی خوشحالی، معاشی ترقی اور غربت مکاؤ پروگرام جیسے اہداف سامنے رکھ کر اقوامِ عالم میں ممتاز اور پُروقار مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پالیسی میکر طرح طرح کی پالیساں مرتب کرتے ہیں، اقتصادی ترقی ، معاشی خوشحالی کے کئی منصوبے تجویز کرتے ہیں پھر ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے غیروں سے بھیک مانگتے ہیں۔ یہودی گماشتوں اور سامراجی قوتوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ ہم US.AID کے مستحق ہیں، ہم IWB,IMF کی امداد کے حقدار ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی یونین اور کئی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے آگے دستِ سوال دراز کرتے ہیں کہ ہمارے اقتصادی ترقی، معاشی خوشحالی ، غربت مکاؤ پروگرام اور دیگر منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہمیں مالی امداد دیں۔ اگر کہیں سے کوئی بھیک سودی قرض وغیرہ کی صورت میں مل جائے تو بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے سودی قرض لیکر اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کے چیلنج کو قبول کر لیا ہے۔ خوب جشن مناتے ہیں، میڈیا پر تبصرے کرتے ہیں کہ یہ ہماری کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عوام کو بے وقوف بناتے ہیں ۔ یہ نہیں جانتے کہ سوال کرنا عزت ووقار کو پامال کرتا ہے۔ خودی کو نقصان پہنچاتا ہے اور کم ہمتی پیدا کرتا ہے۔ حقیر سے حقیر پیشہ اختیار کرنا ، غربت و افلاس کی زندگی بسر کرنا ، ہاتھ پھیلانے سے کئی درجے بہتر ہے۔ ملائشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے جو آج ایشن ٹائیگر بنا ہے اس نے خود انحصاری کی پالیسی اپنائی، اپنے وسائل پر انحصار کیاتو آج کامیاب و کامران ہے۔ان ممالک سے بہتر ہے جنہوں نے اپنے وسائل پر انحصار کرنے کی بجائے سامراج و صہیونی قوتوں کی طرف دیکھااور ان کے زہر آلود پیکجز سے ملک و قوم کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ حدیث مبارکہ ہے۔
من فتح علیٰ نفسہ باب مسئلۃ، فتح اللہ علیہ باب فقر ۔
’’جس نے اپنی ذات کیلئے ایک مرتبہ سوال ( دست درازی ) کا دروازہ کھولا،
اللہ تعالیٰ اس کیلئے فقر و احتیاج کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ‘‘
اپنی خودی میں ڈوب مرنا ، اپنی ضروریات کو خود پورا کرنا ایسا جذبہ ہے جو انسان کو محنت کرنے پر اُکساتا ہے۔ کوشش کی راہ کھولتا ہے اور سوجھ بوجھ پیدا کرتا ہے، علم و ہنر، عقل و دانش عطا کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر قناعت کرے، صبرو استقامت کی پالیسی اپنائے، اپنی ضرورتوں کو حد سے نہ بڑھنے دے۔ اگر حالات سے گھبرا کر ، ضرورتوں سے تنگ آ کر محنت اور کوشش کرنے کی بجائے سوال کرنے، بھیک مانگنے اور دوسروں کا دستِ نگر بننے کا ارادہ کر لیا تو شرم جاتی رہے گی، ساری عزت و آبرو خاک میں مل جائے گی۔ یوں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہے گی اور اللہ کی مدد کا عقیدہ کمزور پڑ جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو معزز پیدا کیا ہے۔ اگر وہ ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلانے لگ جائے تو ساری عزت برباد ہو جاتی ہے اللہ عزوجل بھی اسے پسند نہیں فرماتے کہ انسان غیروں کے آگے دستِ سوال دراز کرے۔ جو انسان اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اس پر ذلت مسلط کر دیتا ہے اور اس کیلئے تنگی، افلاس ، فقرواحتیاج کے دروازے کھول دیتا ہے۔
انسان اپنی حالت آپ بدلنے کا ذمہ دار ہے نہ کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر ، اللہ رب العزت بھی ان لوگوں کی مدد فرماتے ہیں جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی
یُغَیِّرُوْ مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمo (الانفال 53:8)
’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی نعمت کو جو اسے دی گئی ہے اس وقت تک نہیں
بدلتا، جب تک وہ خود نہ بدل جائیں ، اور بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘
حکیم الامت بھی اس حقیقت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جسے نہ ہو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
جس طرح اسلام دنیا کے باقی مذاہب سے بالا تر آسمان سے نازل شدہ اور وحی پر مبنی ایک حقیقی دین ہے اور اس کے علاوہ باقی سب ادیان باطل ہیں ۔ اسی طرح اسلام کے عقاہد و نظریات ، اصول و ضوابط کے حامل مسلمانوں کو بھی اسلامی نکتہ نظر کو ہی مبنی بر حق سمجھنا چاہیے۔ دنیا والوں کے نظریات کچھ بھی ہوں۔ عالم کفر، یہود و نصاریٰ و ہنود، صلیبی و صیہونی دانشوروں کے پھیلائے ہوئے عقاہد چاہے جتنے ملمع سازی سے منقش و مزین لبادوں میں عالمی میڈیا کے ذریعے بیان کئے جائیں قرآن و سنت کے مقابلہ میں وہ باطل ہیں ۔ مسلمانوں کو ان کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ غیب پر ایمان کا مطلب بھی یہی ہے کہ غیب جو بظاہر ہماری عقل میں نہیں آ رہا۔کسی بھی ذریعے یا طریقے سے ہماری سمجھ میں نہیں آتامگر کیونکہ اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺ نے جو فرما دیا ہے تو ہمیں مکمل یقین کر لینا چاہیے کہ یہی حق ہے، یہی ہمارے حق میں بہتر ہے، باقی سب باطل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عالم کفر امتِ مسلمہ کے اسلامی عقاہد و نظریات، اقدارو روایات اور وحی پر مبنی نظریات کو تباہ کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ اپنے خود ساختہ نظریات، قوانین، پالیسیاں میڈیا کے زور پر خوبصورت پیراؤں میں سجا کر بیان کرتے ہیں اور ہمارے سادہ لوح حکمران، دانشور ، پالیسی ساز، سکالر اور معاشی ماہرین جو قرآن و سنت سے بے بہرہ ہیں فوراً انہیں قبول کر لیتے ہیں اور اپنے دین و ایمان کی کسوٹی پر رکھ کر نہیں تولتے۔ ایسے لوگوں کو انسان شمار کرنا تو کجا اللہ تعالیٰ نے انہیں جانور بلکہ ان سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ فرمایا
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنْ الْجِنِّ وَاِلْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَھُوْن
بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا یَسْمَعُوْن
بِھَا اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo
’’اور بیشک ہم نے بہت سے جن اور آدمی جہنم کیلئے پیدا کیے ہیں ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سننے کاکام نہیں لیتے، یہ تو نرے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں۔ (الاعراف179:7)
انسان کیلئے یہ بات شرمناک نہیں کہ وہ مزدوری کرتا ہے ٹوکری اٹھاتا ہے، دکان لگاتا ہے، جوتے بناتا ہے، کپڑا بنتا ہے بلکہ اس کیلئے شرمناک بات یہ ہے کہ وہ خواہشاتِ نفس کا بندہ بن کر اپنا دل و دماغ اور ایمان و ضمیر دوسروں کے ہاتھ فروخت کر دے اور حرصِ دنیا سے اس قدر مغلوب ہو جائے کہ جو پیشانی اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے آگے جھکنے کیلئے بنائی ہے وہ اسے جانوروں سے بدتر، بندر نما یہودیوں اور عیسائیوں کے آگے جھکائے ۔ جو زبان اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مدح سرائی ، حمدو ثناء کیلئے دی ہے وہ اس سے غیر کی مدح سرائی اور خوشامد کرے ۔ جو قوتیں اور صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندوں کو شیطان کی غلامی سے نجات دلانے کیلئے اور دنیا کو امن و سلامتی، عدل و انصاف کا گہوارہ بنانے کیلئے دی ہیں ان کو وہ نظام باطل کے قیام اور کفرو ضلالت کے فروغ کیلئے استعمال کرے۔ غالبا ایسے ہی لوگوں کی تمثیل اللہ تعالیٰ نے حرص و لالچ رکھنے والے ذلیل ترین جانور ’’کتّے ‘‘ سے دی ہے فرمایا
وَلٰکِنَّہ‘ٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ ھَوٰۂُ فَمَثَلُہ‘ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْھَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْھَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِناَo (الاعراف 176: )
’’لیکن وہ تو زمین پکڑ گیا( نفع دنیا کی طرف جھک گیا) اوراپنی خواہشاتِ نفس ہی کا تابع ہوا تو اس کی حالت کتّے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور اگر چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے، یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ‘‘
اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان کی دھاری موجود ہے تو اسے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام میں شرف و بزرگی، عزت و سربلندی نہ مال و دولت میں ہے ، نہ قوت و غلبہ میں اور نہ وردی و تغمات میں۔ بلکہ صرف اس امر میں ہے کہ کوئی شخص کتنا کریم النفس، بلند اخلاق ، صاحب کردار ، امانت دار، متقی، پرہیزگار اور خدا ترس ہے اور اللہ تبارک تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں کس قدر بڑھا ہوا ہے۔
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْo (الحجرات 13:49 )
’’ بیشک اللہ کے ہاں عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔ ‘‘
آج مسلمان اہل کفر کے باطل نظریات کا شکار ہو کر اپنی ساری توانائیاں معاشی ترقی، اقتصادی خوشحالی کے میدان میں لگا کر قرآن و سنت سے دور اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں منع فرما دیا تھا کہ تم کافروں کے کہے پر نہ چلنا، وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم دور کی گمراہی میں جا پڑوگے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تُطِیْعُوْا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنo بَلِ اللّٰہِ مَوْلٰکُمْ وَ ہُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَo (آلعمران149,50:)
’’اے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہے پر چلے تو وہ تمہیں (دین حق سے) الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤگے ( دنیا و آخرت میں) ، بلکہ اللہ تمہارا مولا ہے ( تو تم اسی کے حکم پر قائم رہنا) اور وہ سب سے بہتر مددگارہے۔‘‘
مگرمسلمانوں نے اس حکم کی پروا کیے بغیر کفار کی ہر بات ، ہر نظریہ کو تہہ دل سے قبول کیا اور اسے اپنے ملک میں جگہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج اہل کفر ان کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر دنیا میں اپنے آپ کو بلند کیے ہوئے ہے اور اسلام کے نام لیواؤں کو اپنے طرح طرح کے باطل نظاموں میں جکڑ رکھا ہے۔ ان ذلیل ترین لوگوں نے دنیا کے معزز و عظیم ترین امت ( جسے اللہ رب العالمین کی طرف سے ’’خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘اور’’ اُمَّۃً وَسَطًا لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلیَ النَّاسِ ‘‘کا عظیم اعزاز ملا) کو آج تیسری دنیا کا نام دے کر نظر انداز کر دیا ہے اور اس کی عظمت و بزرگی کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ان کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں، انہیں گاجر ، مولی کی طرح تراشا جا رہا ہے، ان کی عزت وآبرو محفوظ نہیں ، پوری دنیا میں صرف انہیں ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دنیا میں امن و سلامتی ، سکون و اطمینان کے علمبرداروں کو آج دہشت گردقرار دیا جا رہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر اس کا حل اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی سے وابستہ ہے تو اس میں تو مسلمان پہلے ہی بہت آگے ہیں۔ دنیا کی کل دولت کا 70فیصد سے زائد حصہ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ تیل، گیس، معدنی وسائل پوری دنیا کی طاقت ’’معاشی ، دفاعی،اقتصادی قوت ‘‘ کادارومدار ان دو چیزوں پر ہے جو مسلمانوں کے قبضے میں ہیں۔ محلِ وقوع ، زرخیزی اور وسائل کے اعتبار سے دنیا کا بہترین خطہ زمین ان کے قبضے میں ہے تو پھر عزت کیوں نہیں؟اگر قوموں کو عزت زرمیں رکھی ہوتی تو پھر ہمیں آج عزت دار ہونا چاہیے تھا نہ کہ ذلیل و رسوا؟
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مو من کا بے زری سے نہیں
حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ ’’ جو امت کے مرض کو بھی سمجھتے تھے اور اس کے علاج سے بھی بخوبی واقف تھے ‘‘ نے بھی مسلمانوں کے زوال کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ مسلمانوں کا زوال بے زری سے نہیں ہے بلکہ سبب کچھ اور ہے جس کو ہم سب بخوبی سمجھتے ہیں۔
اسلام تو دنیا میں اس وقت بھی عزت پا گیا تھا جب اس کے دامن میں زر نام کی کوئی چیز نہیں تھی مگر عزت اور دبدبہ پورے عالم میں تھا۔ اسلام نے وہ دور دیکھا ہے جب مسلمانوں کے پاس کھانے کیلئے ایک وقت کی روٹی نہیں ملتی تھی اور کفن کے لیے کپڑا تک میسر نہیں آتا تھا مگر اسلام اس وقت بھی عزت پا گیا تھا۔ اس دور کی سپر طاقتیں مٹھی بھر مسلمانوں کے نام سن کرتھڑ تھڑ کانپتی تھیں۔چند لاکھ فاقہ مست، بھوکے پیاسے مسلمانوں نے مل کر آدھی دنیا کو اپنا زیر نگیں بنا لیا تھا۔جسے جسے ہم تعداد میں زیادہ ہوئے اور دھن دولت کو عزت سمجھنا شروع کیا تو ہم کمزور و لاچار ہوتے چلے گئے۔ آج ہم بے تہاشا ، وسائل سے مالا مال ہو کر بھی اسلام کی ان سرحدوں کی حفاظت نہ کر سکے جو اسلام نے ہمیں ابتدا سے ہی عطا کیں تھیں۔ آج سرزمین اندلس، سپین، یونان، اٹلی، روم، قبرص، رومانیا اور یوگوسلاویہ کہاں ہیں جہاں ابتدا سے ہی اسلام کا پرچم لہراتا تھا؟ برصغیر ہندوستان پے مسلمان آٹھ سو سال تک حکومت کر کے زوال پذیر ہوگئے آخر کیا اسباب ہیں ہماری ذلت و رسوائی کے؟ آج روز بروز ہم پر ہماری سرحدیں تنگ ہو رہی ہیں، ذلت ورسوائی، خواری و ناداری ہمارا مقدر بنی ہے۔ آج تو مسلم ممالک زر، دھن دولت سے مالا مال ہیں اور تعداد میں بھی بے تہاشا تقریباً دنیا کو چوتھا حصہ ہیں تو پھر عزت کیوں نہیں؟
تو آئیے ! دیکھیں دنیا میں عزت و وقار ، عظمت و سربلندی، سلامتی وبقاء آزادی و خود مختاری اور دفاع کے حصول کا طریقہ اسلام نے کیا بتایا ہے کہ جسے اختیار کرنے سے عزت و وقار بھی ملے اور دشمن بھی ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہ وَ عَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ وَمَا تَنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَo (الانفال60: )
اور دشمنوں کے مقابلہ کیلئے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے جتنی قوت و طاقت تم تیار کر سکتے ہواسے ہر وقت دشمن کے مقابلہ کیلئے تیار رکھو ۔ اور جتنے گھوڑے تم باندھ سکتے ہو باندھو۔ (رباط الخیل کے لفظی معنی گھوڑے باندھنا ہے مگر اب دورِ جدید میں یہ محاورہ بن چکا ہے جس سے مراد تیز ترین جنگی طیارے، میزائلز ، ٹینک، توپیں ، جنگی کشتیاں، آبدوزیں وغیرہ کا جمع کرنا، سرحدوں پر دشمن کے سامنے مورچہ بندی کرنا اور اسے اپنی قوت و طاقت دکھانا ہے۔ گویا اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ دشمن کو اپنی جنگی قوت ، طاقت، توانائیاں ، صلاحیتیں ، ماحول اور حالات کے مطابق اسلحہ و افرادی قوت دکھاتے رہو، جنگی مشقیں کرتے رہو، مورچہ بندی کرو ) اس طریق سے تم میرے اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کر سکتے ہو ، ان پر اپنا رعب ، دبدبہ اورخوف طار ی کرسکتے ہو اور ان (ظاہری ) دشمنوں کے علاوہ کچھ ایسے(پوشیدہ) دشمنوں کوبھی خوف زدہ کر سکتے ہو، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں خوب جانتا ہے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دفاع کی ترغیب دینے کے فوراً بعد اپنی راہ میں مال خرچ کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’ تم جو مال بھی خرچ کرو وہ تمہیں پورا لوٹا دیا جائے گا اور اس طرح تم کسی قسم کے گھاٹے میں نہیں رہو گے۔‘‘اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے دفاع کیلئے مال خرچ کرنا حقیقت میں اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اور ہمیں اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ دنیا میں تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ ہم دشمن کے تسلط ، فتنہ انگیزیوں، چاپلوسیوں اور چیرہ دستیوں سے محفوظ رہیں گے اور سر اٹھا کر جئیں گے اور آخرت میں بھی ہمیں اس کا بے شمار اجرو ثواب ملے گا۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اس آیت مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا
الا ان القوۃ الرمی (یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین دفعہ دہرائے)
یعنی اے لوگو ! خبردار ہو جاؤ ! قوت نہیں مگر نشانہ بازی، پھر خبردار ہو جاؤ ’’ قوت نہیں مگر نشانہ بازی‘‘ اور پھر خبردار ہو جاؤ ’’ قوت نہیں مگر نشانہ بازی میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کرنا۔‘‘
گویا اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے نشانہ بازی، تیر اندازی اور شہ سواری میں انتہا درجے کی مہارت حاصل کرنے کو عزت و وقار کا ذریعہ قرار دیا ہے اور دشمنوں کو مرعوب کرکے اپنا دفاع کرنے کا مضبوط طریقہ بتایا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام کو یہ مہارتیں حاصل کرنے کا حکم دیا۔ اس ضمن میں آپ ﷺ کے بیشمار ارشادات ہیں۔
ارمو و ارکبوا و کان ترموا احب الیٰ من ان ترکبوا
’’یعنی اے لوگو! نشانہ بازی سیکھو اور سواریاں دوڑانا سیکھو، تمہارا نشانہ بازی سیکھنا، سواریاں دوڑانے سے مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘
ارموا بنی اسماعیل فان اباکم کان راحیا
’’ یعنی اے بنی اسماعیل! نشانہ بازی سیکھو، تمہارا باپ بھی نشانہ باز ( نشانے پر تیر لگانے والا) تھا۔‘‘
من علم الرمی ثم ترکۃ فلیس منا او قد عصی
’’ جس نے نشانہ بازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیںیا اس نے نافرمانی کی۔‘‘
حضور نبی کریمﷺ خود اپنے ساتھیوں کو نشانہ بازی سیکھاتے، گھوڑے دوڑانے کے مقابلے کرواتے۔ آپﷺ کی پوری حیات مبارکہ میں شایدہی کوئی ایسا دن ہو جس دن آپﷺ نے دفاع کی تربیت نہ دی ہو، حتیٰ کہ عید والے دن بھی دفاعی مشقیں ہوا کرتی تھیں۔ کوئی صحابی ایسا نہ تھا جو جہاد سے بیٹھ رہے یا جس نے کم از کم دفاعی ٹریننگ حاصل نہ کی ہو۔ بلکہ آپﷺ نے یہ فرما کر اس حکم (جہاد اور جہادی ٹریننگ)کو اتنا پختہ کر دیا کہ اب جس سے انکار کی گنجائش موجود نہیں۔ فرمایا۔
’’جس شخص نے نہ تو کبھی جہاد (دفاعی امور)میں شرکت کی اور نہ ہی اس کے دل میں جہاد(ملک و قوم کے دفاع)کا شوق پیدا ہوا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ نفاق کی موت مرا ‘‘۔ (صحیح مسلم)
امیر المومنین حضرت سید نا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک میں عربی کمان پکڑی ہوئی تھی تو آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے ہاتھوں میں فارس کی بنی ہوئی کمان تھی۔ حضور ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا۔ ما ہذہ القھا۔ ’’ یہ کیا ہے ؟ اسے پھینک دو۔‘‘
و علیکم بہذہ و اشباھھاورماح القنا
’’ یہ عربی کمانیں اور اس طرح کے نیزے پکڑو، اور سیدھے نیزے حاصل کرو۔‘‘
فان ھم یزیداللہ لکم بھما فی الدین و یمکن لکم فی البلاد
’’اس لئے کہ اسی طریق سے اللہ رب العزت تمہیں دین میں قوت دے گااور علاقے میں تمہارے قدم مضبوط کر دے گا۔‘‘ (ابن ماجہ، مشکوۃ)
دیکھیں کہ حضور سید عالم ﷺ نے تیر ، کمان ، نشانہ بازی ، نیزہ بازی اور فنون حرب و ضرب میں اعلیٰ درجے کی مہارت کو دنیا میں عزت ووقار ، امن و سلامتی اور دفاع کا ذریعہ قرار دیا ہے کیونکہ آج کل تیر، کمان، نیزہ وغیرہ کا دور نہیں ہے بلکہ میزائلو ں ، بموں ، توپوں، تیز ترین جنگی طیاروں ، کشتیوں، آبدوزوں اور جدید ترین ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیاروں کا دور ہے ان سب میں مسلمانوں کو انتہا درجے کی اعلیٰ مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔
یہ بات حکومت کے بنیادی فرائض میں سے ہے کہ وہ ایک منظم ، مضبوط اور طاقتوارفوج کے ساتھ ساتھ عام شہری کو بھی جدید علوم پر مشتمل عسکری، دفاعی، فنی، تکنیکی،جدید ترین جہادی فنون حرب و ضرب کی تربیت فراہم کرے۔ سکولوں ، کالجوں، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں فنون حرب و ضرب کو ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے تاکہ ہمارا ہر نوجوان عسکری تربیت یافتہ ہو تاکہ وہ مشکل وقت میں سر زمین اسلام کے چپہ چپہ کی حفاظت کر سکیں۔ کیونکہ آنے والا دور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور ہے جس میں ہم نے پوری دنیا کو مرعوب کرکے فریضہ نبوت و خلافت کی ادائیگی کا بیڑہ اٹھانا ہے۔ یعنی دین حق ( اسلام ، امن و سلامتی ) کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے۔ لہٰذا باطل کی حمایت میں جشن ، نعرے بازی، جلسے جلوسوں پر اپنی توانائیاں ، صلاحیتیں برباد کرنے کی بجائے پوری قوم کو فنون حرب و ضرب کی ترغیب دلائیں ۔ دفاعی مظاہرے ، فوجی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ ہمارے ہر نوجوان کو جدید ترین عسکری ، دفاعی امور پر مکمل دسترس حاصل ہونی چاہیے۔ ملک سے موسیقی ، ڈرامہ و فلم سازی اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے والے کھیلوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ سوائے تین کھیلوں کے ہر قسم کے کھیل باطل ہیں ۔ نشانہ بازی ، شہ سواری اور اپنی شریک حیات سے خوش طبعی کرنا۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ یہ کھیلیں اور تفریح ہیں اس کے علاوہ تمام کھیلیں اور تفریحیں مسلمانوں پر حرام ہیں۔‘‘
آپ دیکھیں کہ یہود و نصاریٰ و ہنود جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے۔
لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیہود والذین اشرکواo
’’ ضرور تم مسلمانو ں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے۔‘‘
آج وہ پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں اس کی وجہ آپ کو صرف یہی نظر آئے گی کہ وہ ہر قسم کے اسلحہ سے لیس اور ان کا ہر فرد ( مرد و عورت ) عسکری تربیت یافتہ ہے، ان کی کوئی ٹیم نہیں جو دنیا میں کھیل اور سیاحت کی عیاشی میں پڑی ہو۔ ہندؤں کو دیکھیں جو آج روئے زمین پر سب سے بد ترین مشرک ہیں وہ ہر قسم کاجنگی سازو سامان اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں ۔ پوری دنیا سے اسلحہ خرید رہے ہیں ، ان کی بے شمار تنظیمیں کھلے عام جنگی تربیت دینے میں مصروف ہیں اور اہل اسلام کے خلاف مسلح کاروائیاں کھلے عام کر رہے ہیں ۔ کشمیر ، گجرات، آسام بلکہ پورے ہند میں ان کی سفاکی پھیلی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ ( یہودو نصاریٰ و ہنود) جھوٹے اور باطل پرست ہیں اس کے باوجود ہمارے عقیدہ جہاد کے بالکل عین مطابق کام کر رہے ہیں۔ جہاد جو کفر کو ڈرانے اور دھمکانے کا آلہ ہے وہ اہل کفرنے آج مسلمانوں سے چھین رکھا ہے۔ کیا مسلمان اہل مغرب کی خوشنودی کیلئے جہاد ترک کرکے اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺ کی مخالفت مول لیکر اپنے دفاع یا اپنے وقار کا تحفظ کر سکیں گے؟کیا دین و ایمان کو عیاشیوں اور کفرو شرک کی چاپلوسیوں ، فتنہ انگیزیوں ، چیرہ دستیوں کی نذر کرکے ذلت و رسوائی اور تسلط سے بچا جا سکتا ہے؟ معاشی ترقی ، اقتصادی خوشحالی یا سبز انقلاب سے مسلمانوں کی آبرو وابستہ نہیں ۔ اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کو سچا اور اپنا خیرخواہ مان کر جہاد کی راہ اپنانی ہوگی۔ مسلمانوں کی معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کا دارو مدار صرف اور صرف جہاد سے وابستہ ہے۔ حضور سید عالم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے
جعل رزقی تحت ظل رمحی
’’یعنی میرا رزق میرے نیزے کی چھاؤں تلے ہے۔‘‘
مگر افسوس آج مسلمانوں کے عقائد الٹ ہو گئے۔ انہوں نے آزادی کے بدلے غلامی خریدی ، کفار ، مشرکین کے آگے ہاتھ پھیلاکر معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کے نعرے لگائے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔’’ جو (مسلمان) قوم آسمان سے نازل ہونے والے قانون کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے دشمن کو ان پر مسلط کر دے گا اور جو کچھ ان کے پاس ہے (مال و دولت، معدنیات، قدرتی وسائل وغیرہ) وہ سب کچھ ان سے چھین لیں گے۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔
’’ اگر تم نے جہادچھوڑ دیا ، دفاع پر توجہ نہ دی اور آپس میں متحد نہ رہے تو اللہ رب العزت تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جسے کوئی سبز انقلاب بھی دور نہیں کر سکے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹ جاؤ۔‘‘ (مسند احمد، ابو داؤد)
آپ دیکھیں کہ آج ہمیں (مسلمانوں ) کو بالکل اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ اہل کفر ہم پر مسلط ہے۔ انہوں نے ہمارے مال ودولت ، معدنیات، قدرتی وسائل پر مکمل قبضہ کر رکھا ہے۔ دنیا کی کل دولت کے 70فیصدحصہ کے مالک ہونے کے باوجودآج ہم مقروض ہیں ۔ اہل کفر نے ہمیں اپنے باطل نظاموں میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ دنیا سے اسلام کا نام و نشان تک مٹا دینا چاہتے ہیں اور ہم غفلت میں پڑے بہک رہے ہیں۔ ہم ان کے مقاصد سے مکمل شعور و آگاہی رکھنے کے باوجود نہ صرف ان سے چمٹے ہوئے ہیں بلکہ ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں ان کے سہولت کار بھی ہیں، نہ اپنی ملت کا احساس ہے نہ اپنے دین کا۔ ہمیں ذرا فکر بھی نہیں کہ ہمیں اپنے رب سے ملنا ہے۔اس (اللہ رب العالمین)کے حضور جوابدہی کیلئے حاضر ہونا ہے اور وہاں ہم سے ہمارے اعمال کے بارے میں باز پرس ہو گی۔
حضرت سیدنا اسلم ابو عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رومیوں کے ایک بہت بڑے لشکر سے ہمارا سامنا ہوا تو اہل اسلام مجاہدین کی صف سے ایک فدائی نکلا اور اس نے رومیوں کی صفوں میں گھس کر ان کی صفوں کو پھاڑ ڈالا اور زندہ واپس آ گیا تو کچھ لوگوں نے کہا ’’ اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا۔‘‘ حضرت سیدنا ابو ایوب انصار ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس وقت ہمارے ساتھ موجود تھے وہ فوراً بول اٹھے
یایھا الناس انکم تتاء ولون ہذہ الایۃ ہذا التاویل
’’ اے لوگو! تم اس آیت کا صحیح مطلب بیان نہیں کر رہے۔ ہم جانتے ہیں اس آیت کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ پھر فرمانے لگے ’’ہم انصار نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کیا حتیٰ کہ پورے عرب پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا تو ہم نے خیال کیا کہ اب چونکہ اسلام عام ہو گیا ہے اب جہاد کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی اس لیے اب جہاد چھوڑ دیں اور اپنے گھر با راور مال و جائیداد پر توجہ دیں،اپنا کاروبار درست کریں تا کہ ہماری معاشی حالت بہتر ہو جائے تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ
’’اور اپنی ساری توانائیا ں ، صلاحیتیں ، مال و دولت اللہ عزوجل کی راہ میں
خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ (البقرہ 195:2)
تو ’’ فکانت التھلکۃ الاءِ قامۃ فی الاھل و المال و ترک الجہاد۔’’ہلاکت تو یہ ہے کہ جہاد چھوڑ دیا جائے اور گھر اور مال کی طرف توجہ دی جائے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر)
ذراغور فرمائیں کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے جہاد چھوڑ کر معاشی ترقی ، اقتصادی خوشحالی کے خواب دیکھنے کو تباہی ، بربادی اور ہلاکت قرار دیا ہے۔ جبکہ ہم جہاد چھوڑ کر دنیا میں عزت و وقار ، عظمت وسربلندی کے خواب دیکھتے ہیں ۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں ۔
پوری دنیا میں مسلمان منفرد حیثیت کے حامل ہیں اور شیطان لعین جس نے اللہ رب العزت سے ان کا ناطہ توڑنے اور انہیں جہنم کا ایندھن بنانے کیلئے قیامت تک کیلئے مہلت لے رکھی ہے وہ اپنے چیلے چانٹوں کے ذریعے انہیں اللہ عزوجل سے کیے گئے وعدوں اور اس کی اطاعت و بندگی سے روکنا چاہتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جانے اور جنت سے محروم کرنے کے درپے ہے۔اس لیے شیطان اور اس کے چیلے(سامراجی و صہیونی قوتیں)سب ان کے بد ترین دشمن ہیں ۔ مسلمانوں کو کسی کافر کی طرف سے خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِکِیْنَ
اَنْ یُّنَزََّل عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْo
’’وہ جو کافر ہیں کتابی ( یہود اور عیسائی) یا مشرک ، وہ نہیں چاہتے کہ تم پر
تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو۔‘‘ (البقرۃ 105:2)
کیونکہ جہاد اور اتحاد میں مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی ہے اس لیے کافر، اہل کتاب اور مشرک بالکل یہ پسند نہیں کرتے کہ مسلمان پھر سے منظم و متحد ہوں۔ اس لیے مسلمانوں کو کفار سے بالکل الگ تھلگ ہو کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔یاد رکھیں ! جب تک اہل کفر کے دشمن ہونے کا عقیدہ نہیں ہو گا، اس وقت تک اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺکے ہمدرد اور خیر خواہ ہونے کا عقیدہ بھی نہیں آئے گا اور جب اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے ہمدرد اور خیرخواہ ہونے کا عقیدہ نہیں ہو گا تو قرآن وسنت کی باتیں بھی پسند نہیں آئیں گی ۔ آج جو لوگ قرآن وسنت کا نام سنتے ہی پزل ہو جاتے ہیں ، انہیں پسند نہیں آتا کہ ہمارے سامنے آیتیں اور حد یثیں پڑی جائیں وہ در حقیقت کفر کو اپنا دشمن اور اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کو اپنا ہمدرد اور خیر خواہ ہی نہیں سمجھتے۔ کفر کا پروپیگنڈہ ان میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ وہ دن رات شراب پینے والوں ، زانیوں ، بدکاروں ، بے حیاؤں ، سود خوروں ، جوئے بازؤں، رشوت خوروں، موسیقاروں ، فنکاروں اور حدودِ اخلاق و شریعہ کو اعلانیہ توڑنے والوں سے نفرت کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ الٹا ہدایت ، واعظ و نصیحت کرنے والے لوگوں کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ قرآن مجید صرف متقی، پرہیزگاراور اہل ایمان و یقین لوگوں کیلئے باعثِ ہدایت و رہنمائی ہے۔ کفر سے عقید ت رکھنے والے تو اس سے ہدایت کی بجائے اور زیادہ گمراہی میں غرق ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا سچے اور پاکیزہ قرآن و سنت سے نورو ہدایت حاصل کرنے کیلئے اپنے عقیدے کو پاکیزہ و منوربنانا ہوگا۔ اللہ رب العزت پر مکمل اعتماد ، یقین اور بھروسہ کرتے ہوئے اسے اپنا دوست ، ہمدرد اور خیرخواہ اور کفر کو اپنا دشمن سمجھناہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسولﷺکی باتیں پسند آئیں گی، پھر ان کی محبت اور ایمان و یقین پیدا ہو گا۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوْا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُم
سَیِّاٰ تِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (الانفال 29:8)
’’اے ایمان والو!اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں وہ دے گا جو حق کو باطل سے جدا کرے ( یعنی وہ تمہیں ایسی قوت و طاقت دے گا جس سے باطل مرعوب ہو جائے اور حق پوری دنیا پر غالب آئے)اور وہ تمہاری برائیاں اتار دے گا اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

آزادی ، دفاع، عزت و سربلندی کا طریقہ کار” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں