2,173

امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ﷺ ہیں

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ﷺ ہیں
حسن اخلاق آپس میں محبت و مودت کا ذریعہ ہیں اور بد خلقی سبب نفرت انتشار۔ حسن خلق سے باہمی بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے جبکہ بد خلقی نفرت و عداوت کو فروغ دیتی ہے ۔حدیث مبارکہ ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔
اَحْسَنُکُمْ اَحْسَنُکُمْ خُلْقاً
تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔
قرآن کریم میں اللہ نے اپنے محبوب کریم ﷺ کی شان اقدس بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقٍ عَظِیْمٍ o ( القلم)
بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہے۔اور کیوں نہ ہو آپ ﷺ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالکِ خلق عظیم ﷺ فرماتے ہیں ۔
بَعِثْتُ لِاَتَمِّمِ مَکَارَمِ اِخْلَاقٍ۔(حاکم ، مستدرک)
میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ یعنی میں اخلاقی شرافتوں کی تمام قدروں کو عملی صورت میں اپنا کر، اپنے اوپر نافذ کر کے تمہارے سامنے رکھنے اور ان کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
ہمارے آقا و مولا ﷺ کی پوری زند گی پیکرِ اخلاق تھی کیونکہ آپ ﷺ نے قرآنی اخلاقی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کر لیا تھا۔ آپ ﷺ کا اخلاق قرآن کے احکام و ارشادات کا آ ئینہ تھا، قرآن کا کوئی خلق ایسا نہیں ہے جس کو آپ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں نہ سمو لیا ہو۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَّۃٌ حَسَنَّۃٌ 
بے شک تمہارے لیے اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تکمیل کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے میں بہترین نمونہ ہے۔
یعنی رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع اور ان کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے میں ہمارے لیے دنیا و آخرت میں سرخروئی و نجات کا باعث ہے۔مگر آ ج ہمارا کیا حال ہے؟ آج ملت اسلامیہ کی اخلاقی پستی و زبوں حالی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ ہم میں اتباع رسول اور تعلیم و تربیت، ضابطہ و اخلاق سب کا فقدان ہے۔ معاشرہ اسلامی اخلاقی تعلیمات سے ناآشنا ہے، اور جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں ان میں تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں پائے جاتے جس کی وجہ سے ہماری اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو گئی ہیں۔
انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل چیز اخلاقی رویہ ہے۔انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ما تحت استعمال ہوتی ہے ، تمام معاملات ٹھیک رہتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تو نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو دیمک کی طرح کھانے لگتی ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے جو اپنے اپنے مفاد و غرض کے تحفظ کیلئے نہ صرف انسانی حقوق کو بلکہ پورے کے پورے انسانی وجود کو بھی نگل رہی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اب جنگل کا قانون رائج ہے جس میں بہرصورت طاقتورہی جیتتا ہے اور کمزور کا مقدر شکست خوردگی کے سوا کچھ نہیں۔ طاقتور لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پر ہر طرح کا ظلم ڈھاتے ہیں۔ طاقت خواہ مال کی ہو، اختیار کی ہو، علم کی ہو ، صلاحیت کی ہو یا کسی اور قسم کی، وہ ہمیں بلاجھجک ہر اخلاقی قدر پامال کرنے پر آمادہ کردیتی ہے۔بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ طاقتور اور صاحب مرتبہ و با اختیار لوگ اپنی قوت و طاقت کے بل بوتے پر اخلاقی معیارات کی پابندی کرنے سے استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ صورت حال صرف امرا اور مقتدر طبقات تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب خاص وعام، سب اس معاملے میں یکساں ہیں۔جس ملک اورمعاشرے کے سیاست دان ، صاحب اختیار و مقتدر طبقہ اخلاق باختہ ہوں ،علمائے دین اخلاقی قدروں سے بے پروا ہو ں ، حکمران اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوں اس معاشرے کی تباہی یقینی ہو جاتی ہے۔یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جو ہمارے اخلاقی انحطاط کے پیچھے کارفرما ہیں۔جب تک ہم ان وجوہات کو دور نہیں کریں گے، اس وقت تک اخلاقی انحطاط کا یہ کینسر ہمیں اندر ہی اندر کھاتا رہے گا اور ایک روز ہمیں کسی بڑی تباہی سے دوچار کردے گا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔ معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزورپڑھ چکی ہیں۔کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر شخص کف افسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اخلاقی بگاڑ اور رواداری و معاملات کی بیخ کنی جو کسی بھی اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ شائد ہی دنیا کے کسی دوسرے معاشرہ میں پائی جاتی ہو۔
ہم اخلاقی طور پر اس حد تک پست ہو چکے، اخلاقی بیماریو ں کامرض ہم میں اس حد تک سریت کر چکا ہے کہ ہم مرض جاننے کے باوجود اس کا یقین کرنے اور اپنی اصل اور ہمہ گیر بیماری کا اعتراف کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر کوئی خود کو بڑا مومن و متقی تصور کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ معاشرہ میں جو جو بھی مرض ہے، جو جو بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ اس میں نہیں معاشرہ کے تمام دوسرے افراد میں ہیں۔ ہم اس قدر پست، بے شرم و بے غیرت ہو چکے کہ دوسری اقوام کی خرابیوں کا ذکر کرتے تھکتے نہیں اور اپنی خرابیوں پر زبان کھولنا تک گوارا نہیں کرتے۔ہم خود مردہ قوم ہو کر بھی ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے شرماتے نہیں۔ ہم بحیثیت قوم سیاست زدہ ہو چکے ہیں اور دنیا کا ہر فرد جانتا ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست منافقت کا دوسرا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہر ہر فرد میں منافقت، خود غرضی ، مفاد پرستی کا عفریت بھرا پڑا ہے۔آدمی کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ، منہ پے تو کچھ اورہے اور پیٹھ پیچھے کچھ اور۔یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم انسان نما جانوروں اور وحشی درندوں کا ریوڑ بنتی چلی جا رہی ہے، جہاں چار سو انسانوں کے روپ میں خونخوار درندے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ملک میں بے عمل واعظ اور مبلغین کی تو بہتات ہے لیکن مصلح کوئی نہیں۔ سیاستدان ہزاروں ہیں مگر لیڈر ایک بھی نہیں، کوئی ایک بھی رہبر نہیں بلکہ سب رہزن ہیں، سب دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور ملکی معیشت کو چھیر پھاڑ کر کھانے وانے وحشی درندے ہیں۔جھوٹ بولنا، بہتان لگانا، غیبت و چغلی کرنا اور دوسروں کے اچھے کام کو بھی اچھا نہ سمجھنا ان کی فطرت ہے۔ان کی نظر میں ہر وہ کام اچھا ہے جو ان کے ذریعہ سے ہو۔ باقی لوگ جتنے چاہیں اچھے کام کریں وہ اچھے ہو کر بھی اس لیے برے ہیں کہ وہ ان کے ذریعہ سے نہیں ہوئے ، انہیں کرنے والاان کے سوا کوئی اور ہے۔دوسروں کے اچھے کام کی تعریف کرنا ان کے اخلاق و مزاج میں شامل ہی نہیں۔ چور اور لٹیرے محتسب بنے پھرتے ہیں، خود چور ہو کر بھی چور ، چور، چور کا شور مچا رہے ہیں۔
’’چور مچائے شور‘‘ حقیقت میں چور ہی دوسرے لوگوں میں گھس کر خود کو بچانے کیلئے زیادہ شور مچاتا ہے۔سیاسی تو سیاسی رہے کوئی مذہبی لیڈر بھی لیڈر کہلوانے کا مستحق نہیں اس لئے کہ ان میں فرقہ وارانہ منافقت ،تعصب و کینہ بھرا پڑا ہے۔ سنی سنی کیلئے اچھا ہے ، وہابی وہابی کیلئے، دیوبندی دیوبندی کے اچھا، شیعہ شیعہ کیلئے ، دوسرے سب ان کی نظر میں برے، مفسد، مرتد (دین سے پھیرے ہوئے) اور کافر و مشرک ہیں، سب کے سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور ایک دوسرے کی خرابیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے انہیں مزید اچھالنے اورہوا دینے میں مصروف عمل ہیں، سب دوسروں کے گریبانوں میں جھانک جھانک کر دیکھنے کے عادی ہیں مگر کوئی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کو تیار نہیں۔ مذہب کا نام لینے والے مذہب فروش تو بہت ہیں مگر خدا کا خوف دلوں میں بٹھانے والے کوئی نہیں۔ بے غیرت، بے ضمیر، بے حس تبلیغ کر رہے ہیں۔ بے شرم دوسروں کو یہ طعنہ دیتے نظر آتے ہیں کہ شرم کرو، حیاء کرو۔جھوٹے سچ کے علمبردار بنے پھرتے ہیں۔قوم کے غدار حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹ رہے ہیں، دولت دین بن گئی ہے۔ ہر کوئی نظام بدلنے میں مگن ہے لیکن انسانوں کو بدلنے کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ دوسروں کو بدل کر ہر کوئی انقلاب کا دعویدار ہے مگر کوئی خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں۔جھوٹ ، خوشامد، دوغلے پن، دھوکے بازی، فراڈ ، حرام خوری، لالچ، خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو اس ملک میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ یہاں خدا کی عبادت گاہوں، مساجد و مدرسوں تک دھماکے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ دھماکے کرنے والے بھی مسلمان اور مرنے والے بھی مسلمان،بم برسانے والے بھی مسلمان اور جن پر برسائے جا رہے وہ بھی مسلمان،اس مسلم معاشرہ میں گدھے ، خنزیر اور حرام جانور کا گوشت تک فروخت ہو رہا۔ فروخت کرنے والے بھی مسلمان اور کھانے والے بھی مسلمان ۔دھوکا دینے ، دغا کرنے ، ظلم ڈھانے والے بھی مسلمان اور جن پر ڈھایا جارہا وہ بھی مسلمان۔ دین کا تو صرف نام رہ گیا ہے اس معاشرہ میں دین نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
آج ہمارے معاشرہ میں مغرب کی تقلید کا رجحان بڑھتا ہی چلا جارہاہے۔ نام نہاد ترقی کے نام پر ہم نے اپنی اعلیٰ روایتوں کو قربان کرڈالا ہے۔ مغرب کی بے حیائی اور بے پردگی کو جدت کا نام دے کر ہم نے کئی شعبہ ہائے زندگی میں اخلاقی زوال کی آخری حدوں کو چھولیاہے۔ مغرب کی نقالی اور اعلیٰ معیار کی علامت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنے افراد کی ذہنی اور عقلی و اخلاقی سطح کو تو بلند نہ کر سکے مگر ان کی دیکھا دیکھی ہم بھی اس مردہ اور پستی کا شکار قوم کیلئے ہوائی و زمینی سفر کے دوران گرلز ہوسٹس کی سہولت لے آئے۔ اہل احساس اور با شعور لوگوں کے لیے تویہ نظارہ انتہائی دردناک اور شرمناک ہوتاہے جب ایک تنگ سیٹوں والی بس میں وطن کی بیٹی اور حیا کی علامت غیر محرم اور غیر مردوں کی خدمت میں محو نظر آتی ہے۔ سیٹوں کے درمیاں فاصلہ اتنا کم ہوتاہے کہ اس نوجوان، روزگارکے لیے مجبور لڑکی کا جسم بس میں سوار تمام لوگوں سے ٹکرا رہا ہوتاہے اور چند حضرات کے انداز کا میں نے خود مشاہدہ کیاہے جو جان بوجھ کر اسے بار بار بلا رہے ہوتے ہیں کبھی ہیڈ فون کے بہانے تو کبھی کولڈ ڈرنک کی طلب پر۔
مغربی تہذیب حیوانیت سے آگے نکل چکی ہے اور ہم اس کی نقل اتارتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔اب مغرب کا نعرہ ’’آزادی‘‘ کا ہے اور مغرب کی اس آزادی کا مطلب سب باشعور اور مہذب لوگ جانتے ہیں کہ یہ مادر پدر آزاد آزادی دینا چاہتے ہیں ، لباس و کردار کی آزادی دینا چاہتے ہیں۔ اس آزادی کا مطلب عریانیت ہے اور بے حیائی بھی۔ اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی جوان سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے ناجائز تعلقات استوار کرکے خود اپنے جوڑے چن لیں اور حتیٰ کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں، توبھی ماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ایسے بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جن کے باپوں کا پتہ نہیں کون کون ہیں۔ یورپ کے سمندری ساحلوں پر سیاحوں کے ہجوم میں سرعام فحاشی و عریانی کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مغرب کے بعض علاقوں میں فری سیکس کا قانون ہے ۔ جزیرہ نما عرب جہاں سے اسلام کے شگوفوں کو پھل لگے اور پروان چڑھا آج وہاں کا ایک اسلامی ملک خود کو منی یورپ کا درجہ دے کر خوش ہے، لباس اور کردار کی آزادی دے کر وہاں کا معاشرہ یورپ کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔ ہم نے مغرب کو رول ماڈل بنا لیا اور قرآن و سنت کو پشت دھکیل دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حیوانات( گائے، بھینس ، بکری) وغیرہ کو اپنی شرم گاہیں چھپانے کیلئے دم عطا کئے ہیں اور انسانوں کو عقل بخشی ہے کہ وہ لباس میں رہیں۔ مگر ہم اہل مغرب کی نقل اور ماڈرن ازم کے نام پر دن بدن معاشرتی اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔بدقسمتی سے اب یہ کینسر ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔مغرب کی فحاشی و عریانیت دیکھ دیکھ کر ہماری خواتین کا جسم بھی لباس سے باہر آتا نظر آ رہاہے اور شہوت پرستی ہمارے معاشرہ میں پھل پھول رہی ہے، معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ درندگی کے واقعات اس کی بدترین مثالیں ہیں۔

شرق را از خود برد تقلید غرب
باید این اقوام را تنقید غرب
قوت مغرب نہ از چنگ و رباب
نی ز دختران بی حجاب

موبائل، ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور کیبلز نیٹ ورک کے غلط استعمال سے ہماری جوان نسل اخلاقی طور پر تباہ اوردین سے بیزار ہو رہی ہے۔ ڈکومنٹری، سٹوری اور سیکس موویز کے بعد اگر کوئی کمی رہ گئی تھی واحیات گفتگو اور بد گفتار ی کی تو وہ پوری کرنے کیلئے سٹیج ڈراموں نے جنم لے لیا اور بیہودہ گفتگو اور جوغتیں مارنے کا درس دینے لگے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ معاشرے کی اس تباہ کن پستی کی طرف کسی کا بھی کوئی دھیان نہیں جاتا۔ نام نہاد روشن خیال والدین بھی اپنی اولاد کے ساتھ ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر یہ گند ہضم کر جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز صرف کمائی کے دھندے میں مصروف ہیں انہیں معاشرتی پستی سے کوئی سروکار نہیں۔
گوگل کی ایک رپورٹ میری نظر سے گذری کہ” اسلامی جمہوریہ پاکستان فحش ویب سائٹس اور غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنے کے حوالے سے دنیا میں سر فہرست ہے۔ “پڑھ کر بہت دلی صدمہ ہوا اور سر شرم سے جھک گیااور فہرست میں چند دیگر اسلامی ملکوں کے نام بھی سرفہرست تھے ۔ بہت رنج ہوا کہ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلامی معاشرہ کی پاکدامنی اور اخلاقی پاکیزگی کے معترف ہیں اور فخر محسوس کرتے ہوئے ہم دنیا کو باور کراتے ہیں کہ مغربی معاشرہ اخلاقی پاکیزگی و پاکدامنی کے اعتبار سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ مگر مغرب سے آنے والی صدائیں کچھ اور ثابت کر رہی ہیں جو اسلامی معاشرہ کی اخلاقی پاکیزگی و پاکدامنی کی بالکل نفی کرتی ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
انٹرنیٹ اور الیکٹرونک ریفریشمنٹ نے اسلامی معاشرہ کی اخلاقی پاکیزگی و پاکدامی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔آج ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور کردار کے ۔۔۔۔؟ ہمارے ہاں صرف کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوجانا کافی سمجھا جاتا ہے اس کے بعد ہمارے لیے فسق و فجور کی راہیں کھلی ہیں جیسی چاہیں فاسقانہ زندگی بسر کریں، دین سے منحرف ہو جائیں، انکارِ خدا تک نوبت آ جائے ، پوری کی پوری زندگی غیراللہ کی اطاعت میں دے دیں ، اللہ کے قانون کی جگہ اہل باطل کا قانون رائج کریں ، اللہ کی دی ہوئی ہر شے راہ کفر میں نثار کر دیں لیکن نہ جنت کے ملنے میں کوئی شک ، نہ بخشش میں کوئی شک، نہ شفاعتِ رسولﷺ میں کوئی شک ۔آخر ہم خدا سے کس بنا پر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ نرمی برتے گا اور درگذر فرمائے گا؟ کیا خدا کے ساتھ ہمارا تعلق کسی حسب نسب کی بنیاد پر ہے کہ جس کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ ہمیں معاف کر دے گا؟
خدا کا قانون تو بے لاگ ہے اگر نبی کا بیٹا سرکشی کرے تو ڈبو دیا جاتاہے، اگر نبی کی بیوی گمراہ ہو تو اسے غرق کر دیا جاتا ہے، اگر نبی کے عزیز و اقارب گستاخ ہوں تو ان پر لعنت کی جاتی ہے ’’تبت یدا ابی لھب و تب‘‘ اے ابو لہب تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں ، اپنی آل اولاد سمیت تباہ ہوجائے۔‘‘ وہاں صرف اور صرف اعمال کی بنا پر فیصلہ ہو گا نہ کہ نسل، نسب یا تعلق کی بنا پر۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق کسی نسل، نسب ، قوم یا خاندان کی بنا پر تو نہیں ہے۔بلکہ صرف اس کی بندگی اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی اتباع کی صورت میں ہے جس کے ہم پہلے سے باغی ہیں ۔ 
جس ماحول میں معاشرہ کی پاکیزگی کوئی قیمت نہ رکھتی ہو اور جہاں شرم و حیاء عفت و عصمت کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کار ، پردے اورشرم و حیا کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ راستے کی رکاوٹ سمجھا جائے گا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ جو قومیں تباہ ہو گئیں ان میں شیطانیت حد سے زیادہ تجاوز کر چکی تھی، ان کے افسانے ، قصے ، کہانیاں وغیرہ اس پر گواہ ہیں اور جو قومیں آج بڑی تیزی سے تباہیوں اور بربادیوں کی طرف بڑھ رہی ہیں اس کی وجہ بھی شیطانیت کے سوا اور کچھ نہیں۔بے پردگی جس قدر عام ہوگی شہوانیت بھی اسی قدر پھلے پھولے گی ۔ جب آنکھ دیکھتی ہے تو کچھ کرنے پے آمادہ کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کی بے حیائی و بے پردگی نے پورے معاشرہ کو بے حیا ء ، بے شرم و بے غیرت بنا کے رکھ دیا ہے۔ بے حیائی ، بے شرمی اور بے پردگی کے اس پر فتن دور میں بدنگا ہی جس قدر پھل پھول رہی ہے وہ اصحاب فکرو نظر سے پو شیدہ نہیں ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو آنکھ کی ہولناکیوں سے بچے ہوئے ہیں وگرنہ کیا بچے ، کیا جوان، کیا بوڑھے سب آنکھ کی اس موذی مرض کا شکارہیں ۔ معاشرے کی اس قبیح حرکت اور بدترین عادت نے پوری قوم کا اخلاق تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اغوا،گینگ ، ریپ(زنابالجبر)اور ظلم و زیادتی کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
پہلے ایک دور تھا کہ محلہ کے کسی ایک فرد کی بیٹی پورے محلہ اور معاشرہ کی بیٹی تصور کی جاتی تھی اور پورے محلہ کی آنکھیں شرم سے جھکی رہتی تھیں، ان میں حیا اور غیرت تھی۔محمد بن قاسم ایک مسلم بیٹی کی پکار پر اور اس کی عصمت دری کی غیرت میں ہی ہندوستان آ وارد ہوئے تھے۔ اسلامی معاشرہ کے کسی ایک فرد کی بیٹی پوری ملت کی بیٹی سمجھی جاتی تھی۔ آج جس کی بیٹی ہے بس اسی کی بیٹی ہے محلہ کے دوسرے افراد کی نہیں۔آج بیٹی کے گھر سے باہر نکلتے ہی اس پر ہوس بھری نگاہیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بلکہ اب تو یہ دور ہے کہ بیٹی ، بیٹی والے کی بھی بیٹی نہیں رہی یعنی باپ۔ آج دنیا میں باپ بیٹی تعلق کے ہزاروں رودادسننے کو مل رہی ہیں۔ بہن بھائی اپنی نفسانی حوس پوری کرتے نظر آ رہے ہیں۔مغرب و یورپ میں تو ایسے مناظر سر عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔بلکہ اہل مغرب تو افراد معاشرہ کو سیکس موویز اور پورن سائٹس سے مقدس رشتوں سے غلط تعلقات استوار کرنے کی تراغیب دے رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی بے حیائی و بداخلاقی دن بدن عام ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کیبلز پر انتہائی واحیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن چینلوں پر شرم وحیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے شروع ہو گئے ہیں۔قانون کے محافظوں کو عوامی میلوں میں ڈانس تو غیر مہذب لگتا ہے مگر ذرائع ابلاغ پر برہنہ و نیم برہنہ ڈانس انہیں مہذب اور حیاء کے دائرہ میں نظر آتا ہے وہ اس کے خلاف کاروائی کرنے کو تیار نہیں۔جب حیا کا پردہ پھٹ جائے تو انسان بے حیائی کے گہرے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔ وزارت مذہبی امور، جس کا صرف نام سنتے ہیں کوئی اچھا کام تو اس کا کبھی نہیں دیکھا جو اس نے مذہبی امور کی بجا آوری اور معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے اور اخلاقی پستی میں گرنے سے بچانے کے ضمن میں کیا ہو۔ اور پیمرا (PEMRA)کا ادارہ بالکل غیر موثر اور ناکارہ ہو چکا ہے یا ان کے اندر بے حیائی کو روکنے کی وہ ایمانی طاقت نہیں رہی، جس کا ان کا منصب متقاضی ہے۔ صرف احکامات جاری کرکے ان پر عمل کی یقین دہانی نہ کرانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جب معاشرہ انتہائی پستی کی گہرائی میں چلا جائے تو نرم روایہ اپنانے سے اس کو راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا۔ انتہائی سخت قوانین اور ان پر باقاعدہ سختی سے عملدرآمد کروانے سے مسائل کا حل ممکن ہو گا۔
اسلامی معاشرہ کی اخلاقی پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے کیلئے سخت سے سخت قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ تمام فحش اور غیر اخلاقی ویب سائٹس کو پوری طرح بلاک کیا جائے۔ فحش و یڈیوز دیکھنے ، بیچنے اور میموری کارڈز فل کر کے دینے کو نا قابل معافی جرم قرار دیا جائے۔ایک دفعہ باقاعدہ خصوصی ٹیمیں تشکیل دے کر ملک بھر کے تمام کمپیوٹرز سے غیر اخلاقی مواد ختم کرنے کی مہم چلائی جائے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر حکمرانوں کے اپنے مفاد اور ا پنی غرض کیلئے گھر گھر جا کر ووٹوں کا اندراج ہو سکتا ہے، اور کمپین کر کے گھر گھر جا کر ووٹ مانگے جاسکتے ہیں تو معاشرہ کی اخلاقی پاکیزگی کیلئے گھر گھر جا کر کمپیوٹرز کی مانیٹرنگ کیوں نہیں ہو سکتی؟ تمام موبائل شاپس اور ویڈیو سنٹرز کی باقاعدہ مانیٹرنگ کا انتظام کیا جائے کیونکہ اس گند کو پھیلانے میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ ان کے سسٹم چیک کیے جائیں تو فحش اور غیر اخلاقی ویڈیوز سے بھر ے پڑے ہیں جو لوگوں کو 10، 20روپے کے عوض میموری کارڈز وغیرہ میں بھر کے دیتے ہیں۔میرے ایک دوست کی موبائل شاپ ہے۔ ایک دفعہ مجھے اس کے سسٹم پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا تو سارا سیکس موویزبھرا پڑا تھا۔ اس پر میری اس سے کافی بعث ہوئی کہ تم 10، 20کے عوض اپنے لیے دوزخ خرید رہے ہو۔ اس نے بتایا کہ سب موبائل شاپس اور دیڈیو سنٹرز کا کام چلتا بھی اسی چیز پر ہے۔ کہتا ہمارے پاس جتنے لوگ آتے ہیں میموری کارڈز ، یو ایس بی وغیرہ فل کروانے ان میں 80فیصد لوگ فحش موویز، سیکس ڈانس کا مطالبہ کرتے، 10سے 15فیصد کے قریب گانے، ڈرامے اور مجرا وغیرہ کا، 3فیصد کے قریب دیسی گلوکاراور لوک موسیقی کا اوربڑی مشکل سے 2فیصد تک ایسے لوگ ہوتے جن کے منہ سے حمد و نعت اور علماء کے بیانات کے الفاظ نکلتے ہیں۔ یہ حال ہو چکاہم مسلمانوں، اخلاقی پاکیزگی و پاکدامنی کا دعویٰ کرنے والوں کا۔ آج اسلام کا نام بلند کرنے والے بدنام و پامال کرنے پے تلے ہیں۔جب تک انٹرنیٹ سمیت تمام بد اخلاقی پھیلانے والے نیٹ ورک کوکچلا نہ گیا معاشرہ کی اصلاح ناممکن ہے ، بلکہ معاشرہ مزید تباہی سے دوچار ہوتا چلا جائے گا۔اگر ہمیں معاشرہ کو مزید تباہی سے بچانا ہے تو اسلام کے پاکیزہ نظام کو اپنانا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ کو رول ماڈل بنا کر سیرتِ رسولﷺ کو اپنانا اور پھیلانا ہو گا۔ اور پوری قوم کو مغربی و بھارتی ثقافت و میڈیا کے بائیکاٹ کی مہم چلانا ہو گی۔
حالا نکہ اہل مغرب میں کچھ اچھے عوامل اور اعلیٰ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مگر ہم نے ان کو چھوڑ کر صرف بدی و ضلالت اور گمراہی کی طرف جانے والے اور دین سے بھٹکنے کے کاموں میں ان کی نقل اتاری، ان کے اعلیٰ اخلاق ، اچھے اوصاف و اطوار میں نہیں۔آفرین ہے ہماری عقل ، ہماری نقل اور کم ظرفی پر، ہماری عقل کند اور ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ ہم نے جو بھی مغرب کی تقلید کی یا نقل اتاری وہ سب برے اور بے راہ وری کے کاموں میں ہی اتاری، ان کے اچھے کاموں اور اوصاف کے قریب بھی نہیں بھٹکے۔ کیا اس لئے کہ ان کے اچھے کا موں کا ذکر ہمارے دین میں ہے جس سے ہم پہلے سے بیراز ہیں۔ کاش ہم اہل مغرب کے ان اوصاف میں ان کی نقل اتارتے ہیں جو وہاں کے معاشرہ میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دیانت داری،اعلیٰ اخلاق، حسن معاملات، رواداری و مساوات، سچائی، وقت کی پابندی کرنا، اشیائے خرد و نوش، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہ کرنا، مہذبانہ طور طریقے اپنانا، سڑکوں پر سگنلز کی پابندی کرنا، پیدل روڈ کراس کرنے والوں کو گاڑی روک کر راستہ دینا، ہمارے ہاں مصروف روڈ کے کنارے سارا دن کھڑے رہو روڈ کراس کرنے کی کوشش میں کسی میں ذرا حیاء نہیں ٹپکے گی کہ وہ چند سکینڈ گاڑی روک کر آپ کو راستہ دے دے بلکہ وہ کراس کرتے لوگوں کو دیکھ کر زیادہ تیز کرے گا کہ میں ان سے پہلے آگے پیچھے سے نکل جاؤں۔ کوڑا کرکٹ کوڑا دانوں میں ڈالنا، دوسروں کی عزت کرنا اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ، انسانی تقدس و حرمت کا احترام کرنا، انسان تو انسان جانوروں تک کی حفاظت کرنا اور محبت و حسن سلوک سے پیش آناوغیرہ وغیرہ۔ ان سب اعلیٰ اوصاف و اطوار کا آج کسی فرنگی اور بے دین ملک میں پایا جاناکیا ہم اسلام کے ٹھیکیداروں کیلئے شرم و غیرت سے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟ آج جو کسی بھی بے دین معاشرہ میں ،جنکی خرابیاں بیان کرتے ہماری زبانیں تھکتی نہیں ہیں وہاں جو اعلیٰ اخلاقیات، حسن معاملات ،رواداری اور احترام آدمیت ، انسانی مساوات کے جو مظاہرے دیکھنے کو ملتے وہ کسی مسلم معاشرہ میں تو ڈھونڈ کے دیکھاؤ؟افریقی مسلمان کا سیاہ فام بیٹا ، اسلامی گھرانے میں پرورش پانے والا امریکی سفید فام قوم کا صدر بن کے بیٹھ جاتا ہے، پاکستانی نژاد وہاں کے مسلم باشندے یورپین پارلیمنٹ کے ممبر اور مےئر بن کے بیٹھ جاتے ہیں کوئی ان کے مذہب اور آبائی ملک پر اعتراض نہیں اٹھاتا، وہ صرف اچھے اخلاق اور انسانیت کو دیکھتے ہیں نہ کہ نسل، نسب اور ملک و مذہب کو۔ ہمارے ہاں کوئی یورپی باشندہ ،عیسائی و یہودی گھرانوں میں پرورش پانے والا مسلمان ہو کر ، یہاں کی مستقل سکونت اختیار کر کے پارلیمنٹ کا ممبر، یا کسی بڑے سرکاری منصب پر فائز ہو کر تو دیکھائے یہ قوم اس کا کیا حشر کرتی ہے، دھرنے، مظاہرے، یہودی و مغربی ایجنٹ کے خطابات اور پتہ نہیں کیا کیا گل کھلاتی ہے۔ وہاں کوئی کسی کو گھٹیا اور حقیر نہیں سمجھتا، وہاں کو ئی کسی کو مُصّلی، کمی کمینہ، سیٹھ ، راٹھ، چوہدری ، نواب اور سردار نہیں کہتا۔ دین تو سارے کا سارا ہے ہی حقوق العبادپر مشتمل ، حقوق اللہ تو دس فیصد بھی نہیں ہیں دین میں۔ ہمارا معاشرہ حقوق العباد کے تصور سے یکسر خالی ہے ، اس کے برعکس ہمارے ارد گرد مغربی اور مشرقی معاشرے حقوق العباد اور اخلاقیات و رواداری کی معراج کو پہنچے ہوئے ہیں۔اور میں بڑے دعویٰ سے کہتا ہوں کہ مغربی و مشرقی غیر مسلم معاشرے آج جس انسانی اخلاقی عروج پر ہیں اگر ان میں صرف ایمان آ جائے اللہ اور رسول آخر الزماں ﷺ پر تو ان جیسا آپ کوسچا مومن کوئی نہ ملے گا دنیابھر میں۔ 
یہ سب عوامل ہمارے ہی دین کے جزو تھے مگر ہم نے ان کو چھوڑ دیا اور اہل مغرب اور دوسری غیر مسلم اقوام نے اپنا لیا۔ ہم نے اپنے اعلیٰ اوصاف دوسری اقوام کو دے کر وہاں سے ان کے گھٹیا اوصاف کو امپورٹ کیا ۔ہمارے معاشرے میں اشیائے صرف میں ملاوٹ عام ہے ، لوگوں کو زہر کھلایا جا رہا ہے، حلال و حرام میں کوئی تمیز نہیں رہی۔ سود نے عوام کو مردہ کر دیا ہے ،مائیکرو فنانس بنکوں نے عوام کو طرح طرح کے سودی قرضوں میں جکڑ رکھا ہے اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑدی ہے۔ امانت و دیانت، وعدے کی پاسداری و لحاظ، معاملات کی صفائی، سچائی، حسنِ سلوک، خدمت اور ہمدردی و رواداری کا عملی جذبہ جیسی اخلاقی صفات کی مسلمانوں میں شدید کمی ہے۔ 
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
آخر کب تک ہم دوسروں کے گریبانوں میں جھانک جھانک کر واعظ کرنے اور اپنے گریباں میں جھانکنے سے گریزاں رہیں گے؟ جب تک خود احتسابی نہیں آئے گی قوم میں تو اصلاح کار کا عمل کہاں سے آئے گا؟ جب ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے مغربی و مشرقی معاشروں کے خلاف دن رات زبانیں اگال رہے ہوتے ہیں اگر وہ سنتے تو ضرور کہتے اے مسلمانو! کچھ شرم کرو، کوئی غیرت کرو، کوئی حیاء کرو اگر تم میں کوئی انسانیت ہو تو ذرا اپنے معاشرہ اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر تو دیکھو؟ ہمارے معاشرہ میں لوگوں نے دو، دوپیمانے بنارکھے ہیں۔ایک پیمانہ لینے کا اور ایک دینے کا۔ ایک پیمانہ اپنے لیے اوردوسرا پیمانہ دوسروں کے لیے۔وہ اپنے لیے بہتری کی خواہش رکھتے ہیں اور دوسروں کے لیے برا چاہتے ہیں۔ اپنے لیے تو یہ پسند کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے ساتھ اچھا برتاکریں،لیکن وہ خوددوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور حسن اخلاق سے پیش آنا عار اور ہتک سمجھتا ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کا خوب خیال رکھیں لیکن وہ خوددوسرے لوگوں کا ذرہ برابربھی خیال نہیں رکھتے اوران کے ساتھ رواداری اورخندہ پیشانی کے ساتھ بالکل پیش نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی اخلاقی بیماریاں عام ہیں۔دودھ میں ملاوٹ، دودھ بیچنے والوں کو دیکھو تو ان کے پاس لینے کا پیمانہ اور ہے اور دینے کا اور۔ اور پہلے وہ دودھ میں پانی کی ملاوٹ لوگوں سے چھپ کے کرتے تھے مگر اب ان کو ایک بہانہ مل گیا برف اور دودھ کو ٹھنڈا رکھنے کا۔یہ منظر سرعام دیکھنے کو ملتا ہے کہ دودھی لوگ برف کے پھٹے پر کھڑے کینوں کو برف سے بھر نے مصروف ہوتے ہیں۔ اگر ایک من کے کین میں دس لیٹر دودھ ہے توباقی برف ڈال کے پورا بھر دیا جاتا ہے کہ دودھ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی چیز کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جانور صرف اور صرف اپنی جبلت کے تابع ہوتے ہیں۔مثلاً جب کسی جانور کو بھو ک لگتی ہے تو اس کے لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اس کے برعکس ایک انسان زندگی کے ہر معاملے میں کچھ مسلمہ اخلاقی حدود کا لحاظ رکھتا ہے۔وہ جب اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کی اخلاقی حس اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے کوئی غلط راستہ اختیار نہ کرے۔ تاہم جب انسان کی اخلاقی حس کمزور ہوجاتی ہے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھونے لگتا ہے۔ وہ ایک جانور کی طرح ہر کسی کے کھیت کھلیان میں گھس جاتا اور چرنے لگتا ہے۔وہ اپنی ضرورت کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کے سفلی جذبے آہستہ آہستہ ان پر غلبہ پالیتے ہیں۔جس کے بعد انسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہو جاتا ہے اور آخر کار پوری قوم اخلاقی پستی اور تباہی و بربادی کا شکار ہوتی چلی جا تی ہے۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے ، جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ ہمیں قرآن کریم سے راہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ قرآن کریم کی تعلیمات اور اچھے اوصاف کو اپنانا اورسیرتِ رسول ﷺ کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہو گا۔ قرآن کریم و سنت کو پس پست پھینک کر ہم کہیں فلاح نہیں پا سکتے نہ ہی دنیا اور نہ ہی آخرت میں۔

آن کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لایزال است و قدیم
گر تومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں