977

وی آئی پیز سیکورٹی: عوام کا محافظ کون؟ Security for VIP’s, Who is guardian of public?…..

سوال یہ ہے کہ اہم سیکورٹی ادارے، تربیت یافتہ اہلکار سب وی آئی پیز اور سیاستدانوں کیلئے مخصوص ہیں عوام الناس کا محافظ و نگہبان کون ہے؟ عوام کا رکھوالا، عوام کی سیکورٹی کی ذمہ داری کس پر ہے؟ جو آئے روز سانحات رونما ہو رہے ہیں دہشت گردی کے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا جس بے گناہ شخص کا کوئی قاتل نہ ملے اس کی قاتل حکومت نہیں ہوا کرتی ہے ؟ بڑے بڑے منصوبوں پر براجمند وڈیرے، انتظامیہ اس کی ذمہ دار اور رب کی بارگاہ میں جواب دہ ہے۔ عوام الناس کا نجات دہندہ کون ہے؟ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری کس پر ہے؟ کیا پولیس پر یا حکومت پریا دیگر سیکورٹی اداروں پر؟ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے وہ گویا ایسا ہی ہے کہ چور قوم کی رکھوالی پرمعمور ہیں، ہماری پولیس سے بڑھ کردنیا میں کوئی کرپٹ، چور، ڈکیٹ، لٹیرے اور بد عنوان نہیں اور شریف لوگوں کو بجائے تحقیق کے جھوٹے مقدمات میں پھنسانے والااس سے بڑا کوئی ادارہ ہی نہیں ہے۔ یہ علاقہ کے چوروں، ڈکیٹوں، جاگیرداروں اور بدمعاشوں کا دست بازو ہے اور غریب کیلئے باعث مصیبت اور اتنی کم ظرف کہ کسی جائے حادثہ پر موت کا شکار کسی شریف النفس انسان کا کارڈ نہ ان کے ہتھے چڑھ جائے، ان کی حماقت اس کے خاندان والوں پر اس کی موت سے بڑھ کر موت اور بڑا صدمہ ڈال گی بغیر کسی تحقیق کے۔رہی حکومت کی بات کہ اس کے بارے یہ سمجھا جائے وہ عوام کی سیکورٹی پر معمور ہے یہ سراسر جھوٹ اور مہمل فریب کے سوا کچھ نہیں۔

جس حکومت کو خود سیکورٹی اور رکھوالے چاہیں اس نے عوام کی رکھوائی خاک کرنی ہے؟ جو حکمران بلٹ پرؤف سیکورٹی اور پروکوٹول کے بغیر اپنے مضبوط قلعوں، محلوں اور بنگلوں سے نکلنا گوارا نہیں کرتے کیا وہ عوام کی نگہبانی کریں گے؟ کیا وہ عوام کے رکھوالے ہیں جن کی حفاظت پر خود عوام کے رکھوالے معمور ہیں ؟ عوام کی سیکورٹی اور امن عامہ کی دعوے دار پولیس کہاں ہے؟ پولیس کی سپیشل برانچ کے اہلکار کہاں ہیں ؟ ایلیٹ فورس کہاں ہیں ؟ قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے کہاں ہیں ؟ کیا ان سب اداروں کو بنانے کا مقصد اور غرض عوام الناس کی رکھوالی کرنا تھی یا حکمرانوں، وڈیروں اور سیاستدانوں کی؟ کیا سب کے سب ادارے عوام کی رکھوالی پر معمور ہیں یا حکمرانوں، سیاستدانوں، وڈیروں اور ان کے خاندانوں اوران کی بلی کتوں کی رکھوالی پر؟
اہم سیکورٹی اداروں، تربیت یافتہ اہلکاروں کی زیادہ تر توانائیاں کہاں صرف ہوتی ہیں عوام کی رکھوالی پر یا وڈیروں کی؟ صدر، وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزراء، قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین، وفاقی اور صوبائی سیکرٹریز، بیوروکریٹس، پولیس اور فوج کے بڑے بڑے افسران، اہم سیاستدان اور پارٹی قائدین چاہے ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ یا کوئی حکومتی ذمہ داری نہ ہو پھر بھی سرکاری املاک، سرکاری گاڑیاں، سرکاری سیکورٹی ان کی محافظ و دست نگر ہے، سیاسی مولوی، مختلف محکموں میں تعینات آفیسر، ججز، وکلاء، بڑے بڑے تاجر، نواب، جاگیردار، چوہدری،خان وڈیرے اور ان کے کنبے قبیلے، یار دوست، نہ جانے اور کتنے لوگ ہیں ریاست کی پوری مشینری جن کی خدمت گذاری میں لگی رہتی ہے۔ جبکہ جمہوریت کا اصل حق تو یہ ہے کہ لوگوں کو عوامی و سیاسی شخصیات تک بغیر کسی روک ٹوک کے رسائی ہو تاکہ وہ اپنے معاملات آسانی سے ان کے ساتھ برائے راست مل بیٹھ کر حل کر سکیں۔
امیر المومنین حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وقت کے خلیفہ اور امام ہونے کے باوجوداپنے عوام الناس کے احوال جاننے کیلئے تنہا راتوں کو گشت کرتے تھے بغیر کسی پروٹوکول اور سیکورٹی کے، جبکہ ہمارے حکمرانوں کو کہیں جانے کیلئے لاکھوں کی سیکورٹی کا حصار چاہیے اور پتہ نہیں یہ کتنے لوگوں کیلئے زحمت و تکلیف کا باعث بنتے ہیں جس کا انہیں کوئی احساس ہی نہیں، یہ رات کا گشت اور لوگوں کے احوام کیا معلوم کریں گے۔جب فلسطین فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تن تنہا ہزاروں میل دور اپنے ایک غلام اور ایک اونٹ کے ساتھ باری باری سوار ہو کر جاتے ہیں کبھی آقا پیادہ اورگھوڑے کی مہار پکڑ کے چلتے ہیں تو کبھی غلام۔ جب مفتوحہ علاقے میں پہنچتے ہیں تو آقا کی باری پیادہ اور مہارپکڑ کے چلنے کی آگئی۔ غلام عرض کرتا ہے آقا مفتوحہ علاقہ غیر آگیا آپ سوار ہو جائیے میں اپنی باری اللہ کے لیے چھوڑتا ہوں تاکہ لوگوں کو آپ کی عظمت کا پتہ چلے۔ آپ فرماتے ہیں عمر کی عظمت سواری پر سوار ہونے میں نہیں، عمر کی عظمت اپنی باری پر پیادہ چلنے میں ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی کو کسی صوبے یا شہر کا والی مقرر کرتے تھے تو پہلے اس کی جائیداد اور سرمایہ، مال و اسباب کا حساب لے لیتے تھے اور جب وہ اپنے منصب سے الگ ہوتے یا ان کے متعلق دوران تقرر اگر ان کو یہ علم ہوجاتا کہ ان کے پاس غیر معمولی دولت جمع ہوگئی ہے تو آپ اس کا محاسبہ کرتے اور پوچھتے کہ یہ دولت تمہارے پاس کہاں سے آئی؟ آپ کے احتساب سے بڑے بڑے صحابی محفوظ نہ تھے۔ اور اگر ان میں سے کسی کی غلطی پکڑی جاتی تو ان کی باقاعدہ سزا ہوتی تھی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک کتے کے بھوکا پیاسا ہونے پر بھی خود کو قابل مواخذہ سمجھتے تھے، مگر ہمارے حکمران لاکھوں لوگوں کے بھوکا پیاسا مرنے پر بھی خود کو قابل مواخذہ نہیں سمجھتے، لگتا ہے کہ جیسے خدا نے ان کو ہر قسم کے محاسبہ سے رعایت دے رکھی ہو۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنی رعیت کے حالات کا مشاہدہ فرمانے کے لئے گشت لگا رہے تھے کہ ایک بڑھیا عورت کو اپنے خیمہ میں بیٹھے دیکھا آپ اس کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا اے ضعیفہ! عمر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ بولی خدا عمر کا بھلا نہ کرے۔حضرت عمر بولے یہ تم نے بددعا کیوں کی؟عمر سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ وہ بولی، عمر نے آج تک مجھ غریب بڑھیا کی خبر نہیں لی اور مجھے کچھ نہیں دیا۔ حضرت عمر بولے مگر عمر کو کیا خبر کہ اس خیمہ میں امداد کی مستحق ایک ضعیفہ رہتی ہے وہ بولی سبحان اللہ، ایک شخص لوگوں پر امیر مقرر ہو اور پھر وہ اپنی مملکت کے مشرق و مغرب سے ناواقف ہو تعجب کی بات ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رو پڑے اور خود کو مخاطب فرما کر بولے، اے عمر! تجھ سے تو یہ بڑھیا ہی دانا نکلی۔ پھر آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا اے اللہ کی بندی! یہ تکلیف جو تمہیں عمر سے پہنچی ہے تم میرے ہاتھوں کتنے داموں میں بیچوگی، میں چاہتا ہوں کہ عمر کی یہ لغزش تم سے قیمتاً خرید لوں اور عمر کو بچالوں۔ بڑھیا بولی بھئی مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہو فرمایا، نہیں میں مذاق ہر گز نہیں کرتا سچ کہہ رہاہوں کہ تم یہ عمر سے پہنچی ہوئی اپنی تکلیف بیچ دو میں تم جو مانگوگی اس کی قیمت دے دوں گا۔بڑھیا بولی تو پچیس دینار دے دو، یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اتنے میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور آکر کہا، السلام علیک یا امیر المومنین! بڑھیا نے جب امیر المومنین کا لفظ سنا تو بڑی پریشان ہوئی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر بولی، غضب ہوگیا یہ تو خود ہی امیر المومنین عمر ہے اور میں نے انہیں منہ پر ہی کیا کچھ کہہ دیا، حضرت عمر نے بڑھیا کی یہ پریشانی دیکھی تو فرمایا ضعیفہ گھبراؤ مت، خدا تم پر رحم فرمائے تم بالکل سچی ہو، پھر آپ نے ایک تحریر لکھی جس کی عبارت بسم اللہ کے بعد یہ تھی کہ ’’یہ تحریر اس امر کے متعلق ہے کہ عمربن خطاب نے اس ضعیفہ سے اپنی لغزش اور اس ضعیفہ کی پریشانی جو عمر کے عہد خلافت سے لے کر آج تک واقع ہوئی ہے پچیس دینار میں خرید لی، اب یہ بڑھیا قیامت کے دن اللہ کے سامنے عمر کی کوئی شکایت نہ کرے گی اب عمر اس لغزش سے بری ہے اس بیع پر ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما گواہ ہیں۔ ‘‘یہ تحریر لکھ کر بڑھیا کو پچیس دینار دے دئیے اور اس قطع تحریر کو حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے کو دے دیا اور فرمایا جب میں مروں تو میرے کفن میں اس تحریر کو رکھ دینا۔‘‘ (سچی حکایات ص۱۴۱۔۲۴۱)

یہ تھے حکمران جنہیں اپنے عوام کی ذرا ذرا سی لغزش، دکھ اور رنج پر خدا کے حضور دابدہی کا خوف تھا، مگر آج کے حکمران لاکھوں لوگوں کو لغزش پہنچا کر بھی اپنے آپ کو خدا کے حضور جوابدہ نہیں سمجھتے۔

میرے آقا سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راتوں کو تنہاگشت کرکے، لوگوں کے احوال جان کر ان کے مطابق قانون ترتیب دیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ جب کوئی قانون نافذ کرتے تو خفیہ گشت کرتے او ر کرواتے تاکہ معلوم ہو سکے یہ قانون لوگوں پر گراں تو نہیں گذرا؟ اگر کسی قانون سے لوگوں کو سختی یا تکلیف پہنچتی تواگلے ہی دن اس میں نرمی یا تبدیلی کا اعلان ہو جاتا۔ ایک دفعہ رات کے گشت اور پہرہ کے دوران حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک طرف سے بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آپ ادھر متوجہ ہوئے، دیکھا تو ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں رو رہا ہے۔ ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلائے۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے گزرے تو بچے کو روتا پایا اور غیظ میں فرمایا’’تو بڑی بے رحم ماں ہے‘‘۔ عورت نے کہا کہ ’’تم کو اصل حقیقت معلوم نہیں، خواہ مخواہ مجھ کو دق کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے کہ بچے جب تک دودھ نہ چھوڑیں بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے۔ میں اسی غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں کہ یہ دودھ چھوڑے اور اس کا وظیفہ مقرر ہو اور یہ اس وجہ سے روتا ہے‘‘۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رقت طاری ہوئی اور کہا کہ ’ہائے عمر!، تونے کتنے بچوں کارولایا اور تڑپایا ہو گا۔ اگلے دن منادی کروا دی کہ بچے جس دن پیدا ہوں، اسی تاریخ سے ان کے روزینے مقرر کر دئیے جائیں۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ ایسے چل پھر کے، گشت کر کے، لوگوں کے احوال جان کر اس کے مطابق قانون بناتے اور بدلتے تھے جبکہ ہمارے حکمران قانون بناتے ہیں سو دروازوں اور ہزاروں سیکورٹی کے احصار میں چھپ کے خواہ وہ عوام پر جتنے اذیت ناک گذریں، عوام جتنی ان سے نالاں ہوں انہیں اس کی پروا نہیں، اس کا کوئی سروے اور احوال جاننے کا نظام نہیں کہ عوام اس قانون اور نظام سے خو ش ہیں یا ناخوش۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کچھ اونٹ خریدے اور سرکاری چراگاہ میں چرنے کے لئے بھیج دئیے، فربہ ہو گئے تو فروخت کرنے کے لئے بازار لے گئے۔ سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بازار میں دیکھا تو دریافت کیا یہ فربہ اونٹ کس کے ہیں ؟ بتایا گیا عبداللہ بن عمر کے ہیں۔ امیر المومنین نے انہیں طلب کیا اور کیفیت معلوم کی، انہوں نے عرض کیا میں نے انہیں خریدا اور چراگاہ میں بھیج دیا، اس سے جس طرح دیگر مسلمانوں کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے میں نے بھی وہی فائدہ اٹھانا چاہا۔ فرمایا: امیر المومنین کا بیٹا ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازموں نے تمہارے اونٹوں کی نگہداشت کی خود تم نے اس پر ملازم نہ رکھا اس لئے انصاف یہ ہے کہ اونٹ بیچ کر اپنا راس المال لے لو اور باقی رقم سرکاری خزانہ میں داخل کرو۔ قانون داں وقانون سازقوانین وضوابط بناتے بھی ہیں اور نافذبھی کرتے ہیں مگرجب گھرکی بات آتی ہے توان کی زبانِ انصاف بھی خاموش ہوجاتی ہے مگرعدلِ فاروقی کاکیسا نرالااندازہے کہ خودکابیٹاہے تب بھی عدل ومساوات کا وہی حقیقی رنگ نظرآتاہے کہ سرکاری وسائل سے اونٹوں کی پرورش ہوئی تو وہ سرکاری خزانہ میں ہی جمع ہوئے مگر آج کے حکمران پورا کا پورا سرکاری ڈھانچہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں انہیں کوئی خوف ہی نہیں نہ محاسبہ کا ڈر۔ مانا آج دنیا میں تمہارا احتساب کرنے والا کوئی نہیں مگر آخرت میں رب کی عدالت میں تو تم اپنے محاسب سے تو بری نہیں ا س کا کچھ خوف تو ہونا چاہیے نا؟

سرکاری وسائل کا ناجائز اپنے مقاصد کیلئے استعمال اور امانت میں خیانت کرنے والا انسان سکون نہیں پا سکتا، لوگوں کی معصومیت و اعتماد سے کھیلنے والے فرد کوکبھی خوشیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بظاہر نظر آنے والی خوشیاں نظر کا فریب ہیں ضمیر کی آواز پر کان دھریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کی تنہائیاں چیخ چیخ کر ہمیں اپنے غلط ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ ہم سب اپنی ذات اور مفادات کے پجاری بن چکے ہیں، ہم بس اپنی خواہشات ہی کی پرستش کر رہے ہیں، خود ستائی و خود فریبی کا شکار ہو کر ایسے ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جن سے صرف ہم نہیں ہم سے وابستہ کئی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ انفرادی مقصد کا حصول انسان کو تنہا کر دیتا ہے سامنے دکھائی دینے والی کامیابی کے پیچھے بڑے آنسو اور دکھ پوشیدہ ہوتے ہیں خود کو اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے وقف کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ انسان ظلم کو تو بھول سکتامگر ظالم کو نہیں۔

سوال یہ ہے کہ جو رب سے محبت کا دعوے دار ہو وہ اتنا بے رحم و سفاک کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کی محبت کا دم بھرنے والا قدم قدم پہ جھوٹ،فراڈ، دھوکا دہی سے کیسے کام لے سکتا ہے؟ کس طرح خدا کی مقرر کی ہوئی حدود کو پامال کر سکتا ہے، اس کی قدروں کو روند سکتا ہے؟ کیا ایسا انسان جو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویدار ہو وہ بے رحم، بے حس اور خود غرض و سفاک ہو سکتا ہے؟ اللہ کریم سے محبت کرنے والے شخص کے اندر اس کے رب کے رحمن و رحیم ہونے کی صفات کا کچھ رنگ تو ہونا ہی چاہیے۔ ہم بے رحم و سفاک انسان صرف اس فرد کو سمجھتے ہیں، جن کی گولیوں کا نشانہ معصوم لوگ بن رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک درندہ صفت انسان وہ خودکش بمبار ہے جو اپنے ساتھ ساتھ کئی زندگیاں بھی ختم کر ڈالتا ہے۔ ہم اذیت پسند اس شخص کو گردانتے ہیں، کوستے ہیں، بد دعائیں دیتے ہیں جو دن دہاڑے لوٹ مار کرتا ہے۔ کسی کا موبائل چھین لیا، کسی کی رقم، کسی سے زیورات اتروا لیے تو کسی کی گاڑی چھین لی۔

کوئی کسی کو اپنا غم گسار سمجھ کے اپنے دکھ بانٹے، اپنے اور علاقے کے معاملات کے حل کیلئے اپنا نمائندہ چنیں اور وہ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک چھڑک دیں، اور لوگوں کے حقوق غصب کرنا شروع کردیں، اپنی تجوریاں بھرنے اور کاروبار چمکانے لگیں یہ ہے اصل سفاکی اور انتہا درجے کی بے رحمی۔ اپنی کرسی کو بچانے کیلئے جیتے جاگتے وجودوں کو چلتی پھرتی زندہ لاشوں میں تبدیل کر دیں او ر اس گمان میں رہیں کہ ہم حق پر ہیں۔ ہم دعویٰ کریں رب سے محبت کا، مخلوق سے محبت کا اور اسی مخلوق کے لیے ہم اذیت کا باعث بن جائیں کسی کو ہم پھول دیں تو کسی کے لیے ہم خار بچھا دیں۔ وڈیروں، چوہدریوں کو گلے لگائیں اور غریبوں سے ہاتھ ملانا اپنی ہتک سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ کو تو توازن پسند ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں توازن، زندگی کے ہر فیصلے میں عدل تا کہ ہم خود سے منسلک ہر فرد کے ساتھ انصاف کا، عدل کا، رحم کا معاملہ کر سکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں