834

ہم نے باطل سے سمجھوتہ کر لیا

آخر یہ لوگ کس کردار کی بناء پر سول ایوارڈ کے مستحق قرار پائے ؟ کیا ان کا سول سوسائٹی کی اصلاح و بہتری میں کوئی کردار ہے؟ کیا ان کا معاشرتی بھلائی میں کوئی کردار ہے؟ کیا انہوں میں معاشرہ میں لوگوں کی فلاح و بہبود پر کام کیا؟ کیا ان کا اسلامی معاشرہ کی طہارت و پاکیزگی کو برقرار رکھنے میں کوئی کردار ہے؟ آخر کس کردار پر حکومت کی طرف سے ایوارڈ دئیے جاتے ہیں حکومت وہ کردار بھی واضح کرے؟ آخر کس بناء پر یہ ایوارڈ کے مستحق ہیں؟ کیا اس لئے یہ لوگ ایوارڈ کے مستحق قرار پائے کہ انہوں نے شیطانیت کو فروغ دیا؟ لہو و لہب کی اشاعت میں دن رات ایک کیا؟ ان لوگوں کو قرآن کے آئینہ میں تول کر دیکھیں کہ کیا یہ لہو و لہب کے مرتکب نہیں ہیں؟ معاشرہ کو خدا سے غافل و بے نیاز کرنے میں اپنا کردار ادا کیا؟ شوبز سے منسلک مورتیوں نے خدا کے حیاء و پردہ کے احکام کو تار تار کرتے ہوئے بے حیائی و بے پردگی کو فروغ دیا کیا اس لئے ایوارڈ کی مستحق ہیں؟کیا ایوارڈ زکی اس لسٹ میں کسی اس شخص یا کسی مذہبی شخصیت کا بھی کوئی نام ہے جنہوں نے دن رات معاشرہ کی بیداری و اصلاح کیلئے کام کیا؟ سیرت پر کام کیا؟ سیرت طیبہ کو معاشرہ میں پروان چڑھانے دن رات وقف کیا؟ دن رات بیداری و اصلاح امت پر کام کیا؟جو امت کے حال سے فکر مند ہیں، جن کے زمانے میں امت کازوال دیکھ کر، ذلت و رسوائی دیکھ کردن رات آنسو نہیں تھمتے؟
یہ سب کو مانناپڑے گا کہ ہم نے نظام باطل سے سمجھوتہ کر لیا۔ ہم نے اہل باطل سے یہ طے کر لیا ہے ہم ہر جگہ سرکاری سطح تک باطل کو سپورٹ کریں گے۔ باطل کو پھیلانے میں کردار ادا کریں گے۔ اہل باطل کو عزت دیں گے اور اہل دین کو ذلیل کریں گے، ان پر دہشت گردی کے لیبل لگائیں گے۔ شیطانیت کو فروغ دینے والے اس قوم کے ستارے ہیں اور دین کے فروغ میں کوشاں رہنے والے شدت پسند، بنیاد پرست اور دہشت گرد ہیں۔ ہم اور ہمارا نظام، ہمارے حکمران دین کو پھیلانے ، دین کو فروغ دینے اور اس کے نفاذ میں کتنے مخلص، معاون اور سہولت کار ہیں ؟ آج ہمارے حکمران، ہمارے سپہ سالار شیطانیت پھیلانے کے سہولت کار اور اس کے دفاع کے محافظ ہیں دین کے نہیں۔ ہمارے ملک میں سزا و جزاء کے قانون میں بھی کوئی دین کو نہیں پوچھتا، کوئی عدالت فیصلہ سناتے ہوئے قرآن و سنت کو نہیں دیکھتی کہ ان میں کیا حکم ہے۔ہمارے ہاں سرکاری اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر سزا ہے، ہمارے ملک کے آئین و دستور کی خلاف ورزی پر سزاہے،ہمارے خود ساختہ بنائے گئے ، خود غرض سیاستدانوں کے کم فہم ذہنوں سے گھڑے گئے قوانین کی خلاف ورزی پر سزا ہے مگر اللہ کریم اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں۔ قرآن و حدیث کے احکامات کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں۔لوگ اعلانیہ نماز نہ پڑھیں، روزے نہ رکھیں، زکوٰۃ نہ دیں، حق العباد کا لحاظ نہ رکھیں کوئی سزا نہیں، لوگ قرآن و حدیث کے احکامات کے خلاف چلیں، ان کا مذاق اڑائیں، دین کی پرکھیاں بکھیریں تو وہ مجرم نہیں ملک کے معزز شہری ہیں مگر جب کسی حکمران، عدالتی حکم یا آئین و دستور کو رد کریں تو مجرم ہیں گویا ہمارے ملکی قوانین اور دستور قرآن سے بالا ہوئے نا؟ خود ساختہ قوانین اور دستور کو جھٹلانے پر بڑے بڑے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں مگر قرآن کو جھٹلانے پر ، قرآن و سنت کی خلاف کرنے کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ سرکاری اداروں میں منتخب ہونے کے لئے پبلک سروس کمیشن، این ٹی ایس ٹیسٹ اور کیا کچھ نہیں ہوتا، مگر اللہ کے دین کے ستونوں، محور و مرکز مساجد میں اندھے بہرے لولے لنگڑے بھی چل رہے ہیں، جنہیں احکامات دینیہ سے کوئی فہم وادارک ہی نہیں وہ بھی مصلہ امامت پر براجمند ہیں۔ہمارے معاشرہ میں جو قرآن و حدیث پڑھا ہو ا ہو، فقہ کا علم رکھتا ہو وہ محض مولوی ہے اور اس پر بنیاد پرستی کا الزام بھی کہ اسلام کے بنیاد اصولوں کی بات کرتا ہے اور جو انگریزی پڑھا ہوا ہو، انگریزی میں بول چال کر سکتا ہو وہ معاشرہ کا ایک پڑھا لکھا اورمعزز شہری ہے۔انگلش لکھنا پڑھنا نہ آتی ہو تو کوئی ہماری اسمبلیوں کا ممبر نہیں بن سکتا، نہ کوئی سرکاری ملازمت اختیار کر سکتاہے لیکن اگر قرآن پڑھنا نہ آتا ہو تووہ ہر طرح کے سرکاری عہدہ پر براجمند ہو سکتا ہے حتیٰ کہ نماز اور کلمے بھی نہ آتے ہوں پھر بھی وہ وزیر ، مشیر، قانون دان اور ملک کا سربراہ تک بن سکتا ہے۔ یہ عزت ہے دین کی ہمارے معاشرہ میں ، یہ قدر ہے قرآن و حدیث کی ہمارے سماج میں۔ ہم اللہ کے دین کی اتنی بے قدری کرکے اس سے کیا امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری قدر کرے گا؟ قوموں کی صفوں میں ہماری شان بڑھائے گا اور دنیا میں سربلندی و وقار عطا کرے گا؟
آج ملت کے ہر طبقہ نے دین کو بے یار مددگار چھوڑ دیا ہے۔ہمارے تمام سرکاری ادارے دجالیت پھیلانے کی فیور میں ہیں دین کی نہیں، وہ کھیل تماشا، ناچ راگ، شوبز اور فیشن و عریانت کو سپورٹ کرتے ہیں دین کو نہیں۔مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں پر پابندی عائد کر دی گئی کہ مسجد سے باہر کے لوگ دین کی باتیں نہ سن سکیں اس کے برعکس اگر ناچ راگ، مجرے، ڈانس و بھنگڑے، ڈرامہ ، موسیقی و فلم سازی پر پابندی لگتی تو معاشرہ بے حیائی و عریانیت کا خاتمہ نہ ہوجاتا؟ یہ رب کو تو ناراض کر سکتے ہیں مگر شیطان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے۔کھیل کے میچ ، کسی ٹرافی، پی ایس ایل یا ورلڈ کپ کے فائنل ہوں تو ہمارے وزیر اعظم بھی بول اٹھتے ہیں کہ میچ کے دوران پورے ملک میں بجلی بند نہ کی جائے تاکہ پوری قوم خدا و رسول ﷺ سے غافل و بے نیاز ہو کرخوب انجوائے کرے اور شیطان کی خوشی میں بھی کوئی خلل نہ آئے۔ہماری فوج کے سپہ سالار بھی بول اٹھتے ہیں کہ فائنل میچ و فیشن شوز کے دفاع کیلئے کتنی سکیورٹی چاہیے ہمیں بتاؤ ہم حاضر ہیں۔کیا کبھی کسی نے ہمارے وزرائے اعظم اور سرکاری افسروں کی زبان سے یہ بھی سناکہ گرمیوں میں نماز کے اوقات میں بجلی بند نہ کی جائے لوگ وضو کیلئے پانی اور ٹھنڈی ہوا سے محروم ہوتے ہیں؟ کیا کبھی کسی نے ہمارے فوج کے سپہ سالاروں کی زبان سے یہ بھی سنا کہ ملک میں انعقاد ہونے والی اسلامی آگاہی، اصلاح و بیداری امت کانفرنسز کی سکیورٹی کیلئے کیا درکار ہے ہمیں بتاؤ ہم مہیا کریں گے؟کھیل تماشا، ناچ راگ، فیشن کو فروغ دینا اور مقابلے کروانا ہوں، قوم کو خدا و رسول ﷺ سے غافل کر کے شیطان کو خوش کرنا ہو تو سرکاری سطح پر اس کا کس قدر اہتمام اور معاونت کی جاتی ہے۔
پی ایس ایل PSL ہوئی ، سرکاری سطح پر کس قدر اہتمام ، شاہ خرچ اور معاونت کی گئی ، گراؤنڈ کی سیکورٹی کیلئے آس پاس کی مساجد دو تین روز کیلئے بند کر دی جاتی ہیں۔ نماز کیلئے طواف کعبہ بند ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں نماز کیلئے کھیل بند نہیں ہو سکتا۔ کھیل کیلئے اللہ کی مسجدیں بند ہو سکتی ہیں مگر مسجدوں کیلئے کھیل بند نہیں ہو سکتا۔ کھیل کیلئے نماز روکی جا سکتی ہے مگر نماز کیلئے کھیل نہیں رک سکتا۔ کھیل کیلئے مسجدیں ویران کی جا سکتی ہیں مگر مسجد کیلئے کھیل کے میدان ویران نہیں ہو سکتے۔ ہماری فوج ، ہماری سپاہ گراؤنڈ کو تو سکیورٹی دے سکتے ہیں مگر مسجدوں کو نہیں۔ انہیں ڈر صرف اللہ کی گھروں سے ہی آتا ہے، آس پاس شیطان کے گھر میوزک سنٹر، سینما ، فیشن سنٹر سب کھلے رہیں مگر مسجدیں بند ہوں۔ شیطان کی طرف جانے والے تمام راستے کھلے ہوں اور اللہ کی طرف جانے کے راستے بند کر دئیے جاتے ہیں کہ اگر کسی کو یہاں اللہ کی یاد آئے اور وہ نماز کیلئے مسجد جانا چاہیے تو نہ جا سکے۔ یہ معاملہ حشر میں رب کی عدالت میں پیش ہوگا،یہ مردود قہار کے قہر سے بچ نہیں پائیں گے۔
یہ لادین جمہوری مداری قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے اور اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی پر اتر آئے۔ آئین پاکستان قرآن کی بجائے اپنی غرض اور مفاد کو مدنظر رکھتے ترتیب دیا۔ ہمارے معاشرے میں بے راہ روی کی مکمل ذمہ داری خود پاکستان کے معماروں پر عائد ہوتی ہے۔ ان معماروں نے اسلام کے نام پر پاکستان تو حاصل کر لیا مگر اسلام کے اوامر و نواہی اور احکامات دینیہ پر عمل کرنے کا کوئی سامان نہ کیا۔ آج کے حکمران و سیاستدان بتائیں کتنی قرآن و سنت سے راہنمائی لی گئی ریاست اسلامیہ پاکستان کے قوانین ترتیب دیتے ہوئے؟ یہ سب دنیاوی تماشا کرنے والے مداری ہیں۔ ہر طرف تماشا بپا ہے معاشرہ میں کوئی مداری کہیں لوگوں کو جمع کر کے اپنے نعرے لگوا رہا ہے تو کوئی کہیں۔ کوئی نیا پاکستا ن بنا رہاہے تو کوئی لوٹنے کے نت نئے طریقہ ایجاد کر رہاہے ، امت کو نیا رنگ دے کر صاحب اخلاق بنانے ، تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے اور دنیا میں عزت ووقار عطا کرنے کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ امت کو دنیا میں کامرانی و سرفرازی دلانا کسی کا نعرہ نہیں۔ کہیں جئے بھٹو اور زر خواری کے نعرے ہیں تو کہیں شریف لٹیروں کے ، کہیں خان ہے تو کہیں فضول مولانا۔ اور ان کے سیاسی متوالے ان کے گرد بھنگڑے ڈالے ہیں سیاسی خاندانی قیدی و غلام۔ کیا تم ان کی خاندانی غلامی کیلئے پیدا کیے گئے ہو؟ آج یہ ہیں کل ان کی اولاد ہو گی تمہارے نعروں میں خواہ وہ عقل و فہم اورشعور سے خالی ہو اور دین سے بیزار۔ حقیقت میں ان کی مت ہی ماری گئی ہے ، ان کی عقلیں کام ہی نہیں کرتیں، بہرے، گونگے اندھے جانور۔
آج ہماری دعاؤں میں قبولیت کیوں نہیں؟ ہماری دعاؤں میں اثر کیوں نہیں؟ ہماری فریادیں کیوں نہیں سنی جاتیں اس خدا کی بارگاہ میں ؟ اس لئے کہ ہم نے اس کے دین کو پیچھے کیا، اس نے ہمیں پیچھے کر دیا، ہم نے اس کے دین سے منہ موڑا اس نے ہم سے منہ موڑ لیا۔ ہم نے اس کے دین کو چھوڑا اس نے ہمیں چھوڑ دیا،ہم اس کے دین کی باتیں سن کر عمل کرنے کو تیار نہیں وہ ہماری صدائیں سن کر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آج کوئی دین و ملت کی خبر لینے والا نہیں رہا کہ وہ دن بدن کیوں پستیوں کی طرف جا رہی؟ اس کی سب سے زیادہ ذمہ دار اور عدالت خداوندی میں جوابدہ حکومت، حکمران و سیاستدان طبقہ ہے جنہوں نے مغرب کی مکاری لبرل اور سیکولر نظریات کو اپناتے ہوئے دین کی نجکاری کی اور اس کی مہار بندے بندے کے ہاتھوں میں دے دی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کیا ، حکیم الامت حضرت اقبال ؒ کی زبان ترجمان سے عرض کرتا ہوں ۔
تنگ بر ما راہ گذارِ دیں شدے
ہر لعینِ راز دارِ دیں شدے
کیا آج ہمارا معاشرہ یہ منظر پیش نہیں کر رہا کہ ہر لعین، ہر کمینہ سے کمینہ شخص، ہر کم ظرف و ضمیر فروش انسان دین کا راز دار اور ٹھیکیدار بن کے بیٹھ گیا ہے؟ دین کی نجکاری سے، دین کو ریاستی امور و حکومت سے الگ کرنے سے فرقے بڑھے، مسالک بڑھے،معاشرہ میں تعصب اور نفرتیں بڑھیں، عداوتیں پھلی پھولیں، معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوا، ابلیسی و دجالی قوتوں نے راہ پائی اور معاشرہ کے سر پر سوار ہو کر بیٹھ گئیں۔ آج ہر مسلک ، ہر فرقہ، ہرگروہ خود کو سچا اور دوسروں کو کافرو مشرک گردانتا ہے۔ آج امت گروہ در گروہ، فرقہ در فرقہ ، مسلک در مسلک تقسیم کے عمل سے گذر رہی ہے۔آج ملت کا ہر شخص اسلام نہیں بلکہ صرف اپنے اپنے عقیدہ و مسلک کا جھنڈا لے کر دنیا پر پانپنے کی کوشش کر رہا ہے، اور ہمارا ملت اسلامیہ کا حکمران طبقہ بھی دین و ملت کو چھوڑ کر وطن پرستی کو بنیاد بنا کروطن کو خدا بنا کے بیٹھا ہے کہ جو کرنا ہے وطن کیلئے کرنا ہے ملت کیلئے نہیں، ملت ڈوبتی ہے تو ڈوبے، دین جاتا ہے تو جائے کوئی پرواہ نہیں مگر ملک میں ان کی حکمرانی قائم و دائم رہنی چاہیے اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں