219

اربوں نیکیوں کا ماہ صیام لیکن بدبختی پھر بھی باقی؟

اللہ تعالی کی کیسی عظیم مہربانی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اپنے تمام گناہوں کو مٹا دینے کی خاطر ہر سال ، تیس دنوں کا ایک مہینہ ، رمضان المبارک کا عطا فرمایا جس کی راتوں میں بھی برکت ہے ، جس کے دنوں میں بھی برکت ہے، جس کے جاگنے میں بھی برکت ہے ، اور جس کے سونے میں بھی برکت ہے۔ یعنی یہ مہینہ سر تا پا برکت ہی برکت ہے۔

وہ ماہ مقدس جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس کا کوئی تعلق عمل کے دس گنا اجر سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا اجر خاص مجھ ہی سے ہے ۔ اور ہر روزے کی جتنی بھی جزا میں دوں ، کم ہے۔ وہ مہینہ جس میں ہر چھوٹی بڑی نیکی کے ثواب ازخود کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اس کی راتوں میں جب مسلمان ہر روز تراویح پڑھتے ہیں تو قیامت میں یہ قرآن ان کے لیے خود ہی سفارش بن جائے گا۔ اور ہر روزہ ، خود ہی شفاعت بن کر کھڑا ہوگا۔ اسی مہینے میں وہ طاق راتیں بھی ہیں جن میں سے ایک رات، ایک ہزار مہینوں کے برابر بھی ہے ۔ یہ مہینہ اعتکاف کا مہینہ بھی ہے جس میں پاکستان بھر کے سینکڑوں ہزاروں لوگ، سب سے کٹ کر خالص اللہ کے لیے مسجد میں جا بیٹھتے ہیں۔

مطلب یہ کہ یہ وہ واحد مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کو کم از کم بھی ایک ارب گنا ثواب ملتا ہوگا جس کی مدد سے وہ اپنے تمام گناہوں کو کراما کاتبین کی کتابوں سے دھو سکتے ہیں۔ لہذا اگر یہ مہینہ بھی ہم سے رخصت ہو گیا تو پھر ایک سال بعد ہی جاکر وہ شاید ہمیں دوبارہ نصیب ہو۔ مگر کیا پتہ کہ تب ہم اس دنیا میں موجودہوں یا نہ ہوں۔

میں جب مسجد میں تراویح پڑھنے جاتا ہوں تو بھری ہوئی مسجد دیکھ کر دل بہت مسرور ہوتا ہے اور فیصلہ دیتا ہے کہ اس مہینے میں ، یہاں سب کے سب بخشے ہوئے مسلمان ہی موجود ہیں۔
فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ روزے دار، جنت میں ایک خاص دروازے سے جائے گا جس کا نام ریان ہے۔توجیسا کہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بڑی اہم تقریب میں جانے کے لیے ایک دروازہ ہوتا ہے ہے جہاں سیکورٹی کارڈ لوگوں کو ان کی شناخت دیکھ کر ہی اندر جانے دیتا ہے ۔ لیکن جہاں وہ دیکھتا ہے کہ ایک بہت اہم شخصیت چلی آرہی ہے تو ہاتھ کے ہلکے سے اشارے ہی سے موہ اسے اندر جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ “اتنی اہم شخصیت کو کیا چیک کیا جائے ؟ یہ تو ہیں ہی بڑی شخصیت”؟
اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ آخرت میں بھی روزے داروں کو کو جنت کا نگہبان فرشتہ بھی ہاتھ کے ہلکے سے اشارے ہی سے جنت کے اندر جانے کی دعوت دے رہا ہوگا۔

لیکن جب میں دوسری طرف دیکھتا ہوں تو دل بجھ کے رہ جاتا ہے۔ انہی روزے داروں میں سے بیسیوں ایسے ہیں جو اپنی زندگی میں روزانہ ماں بہن کی غلیظ گالیاں بکتے ہیں۔ بیسیوں مزید ہیں جو ماں باپ کی کھلی نافرمانی کرتے ہیں۔ سیکڑوں رکوع وسجود میں غرق ایسے ہیں جو اپنے پڑوسیوں کو روزانہ ایذا دیتے ہیں ۔ بے شمار مسلمان ہیں جو سجدہ ریزی بھی کر تے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ منافع خوری بھی کر تے ہیں۔ کئی سجدہ ریز حضرات وہ ہیں جو دفتر میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ تکبر اور فرعونیت کا سلوک روا رکھتے ہیں۔ تراویح ادا کرنے والے انہی ہزاروں نمازیوں میں وہ صاحبان اقتدار بھی ہیں جو اختیارات ملنے کے بعد بھی ملک کو دہریت و عریانی کی طرف دانستہ دھکیل رہے ہیں۔ اور ہزاروں نمازی ریٹائرڈ ملازمین وہ ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی لاکھوں روپے کی رقم کو جان بوجھ کر سودی کھاتوں میں جمع کروایا ہے جہاں سے اللہ کی حرام کردہ ماہانہ رقم کو وہ خوشی خوشی وصول کر رہے ہیں۔
تو یہ سارے معاملات دیکھ کر دل پھر بجھ سا جاتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ بے پناہ بخشش لئیے ہوئے یہ مبارک مہینہ ، پھر ان کے شاید ہی کچھ کام آسکے ۔ اپنی ان تمام مشقتوں اور والہانہ رکوع و سجود کے باوجود وہ وہاں محروم کے محروم ہی رہیں گے۔
۔
اور تب ہی میرا دھیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی جانب جاتا ہے جس میں آپ ص نے فرمایا کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جسے رمضان کا مہینہ ملے اور پھر بھی وہ اپنی مغفرت نہ کرواسکے۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی اللہ تعالی سے اپنی بخشش نہ کرواسکے تو پھر اللہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اسے بھوکا پیاسا رکھے؟
کیسا عجیب محرومی کا سماں ہوگا وہ جب ارب ہا ارب کی نیکیاں کما کر بھی سجدہ ریز اور روزہ دار مسلمان، وہاں اوپر محروم و معتوب ہی گردانا جائے گا!
رضی الدین سید ۔ کراچی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں