222

پاکستانی نظام کی جکڑ بندیاں

ہمارےملک کا اقتصادی ،عدالتی،اور معاشرتی نظام وغیرہ اس قدر شکنجے میں کس دیا گیا ہے کہ اگرنچلی یااونچی سطح کا کوئی نیک افسر، اچھا کام کرنا بھی چاہے تواس کے لئے فضا خوف ناک بنا دی جاتی ہے۔ چاروں طرف سے اسے عجیب نگاہوں کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے جس کی ہولناکی کو دیکھ کروہ بچارا اس طرح سہم جاتا ہے جیسے کوئی گناہ کردیا ہو، یاجیسےکسی گناہ کے بارے میں سوچ لیا ہو۔یہاں جو بھی مقتدر طبقہ ہے , وہ ایک نہیں، سب کا سب ،نہ صرف حالات کو جوں کا توں رکھنے کا عادی ہے , بلکہ بد سےبدتر ین کر دینے کے لیے بھی پوری طرح متحرک ہے۔ ملک کی تعلیم میں، سیاست میں , کاروبار میں، حکومتی نظام میں، اور عدلیہ میں، دھیلے کے برابر بھی بہتری لانے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ملک برباد ہوجائے , عوام مر جائیں , انصاف تماشا بن جائے , اخلاقیات جنازے میں ڈھل جائیں , ملک غیروں کا غلام بن جائے، اور دشمن ممالک ہم پر چڑھ دوڑیں، مجال ہے جو اس بارے میں کسی کو ذرہ برابر بھی کسک لاحق ہو۔ہر چھوٹے بڑے ځحکومتی ادارے میں ، بلکہ خود محکمہ انسداد رشوت ستانی اور سپریم کورٹ و ہائی کورٹ جیسے اہم اداروں میں بھی، نہ صرف تبدیلی لانے کی ہلکی سی کوشش بھی خوفناک نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے , بلکہ جہاں جہاں بھی بس چلتا ہے , ایسے اقدام کرنے والے افراد کے مشاہرے یا توکم کر دئے جاتے ہیں یا انہیں کسی چھوٹے سے ناکارہ محکمے میں بھیج دیا جاتا ہے۔اس کے باوجود اگر صاحبان ِ تبدیلی ، اپنے عزم پر اڑےہوں ،تو کہیں نہ کہیں سے گھڑ کر ان پر عجیب وغریب سی قانونی دفعات تھوپ دی جاتی ہیں , تاکہ حب الوطنی اور انقلابی سوچ , سہم کر رہ جائے۔ یہ تمام رذیل حرکتیں،پاکستان بننے کے پندرہ بیس سالوں کے بعد ہی سے شروع کردی گئی تھیں۔یعنی عمدہ نظام کو ابتدا ہی سےجڑ پکڑنے سے روک دیا گیا تھا ۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس بڑے صوبے،مشرقی پاکستان نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی تھی ، اسی کو بہت بڑا بوجھ سمجھ کرمحض چوبیس سالوں ہی میں کاٹ کر پھینک دیا گیا ۔اور آج تک اس پر کسی کو شرمندگی یا ندامت بھی نہیں ہے۔جیسے ان لوگوں نے کوئی گناہ ہی نہ کیاہو۔ گندے نظام اورناپاک ذہنیت کی مثال اس سے بڑھ کراور کیا ہوگی؟
جکڑ بندی والے اس نظام کی چندحقیقتیں یہ بھی ہیں(۱)ماڈل ایان علی پر بھاری رقم ملک سے باہر لے جانے کا مقدمہ چلا .خاتون رنگے ہاتھوں پکڑی بھی گئی ۔ لیکن بعد میں پراسرار ہاتھوں نے ایسی دخل اندازی کی کہ مجرم ماڈل ،ملک سے فرار ہوگئی اور قانون تماشا ہی دیکھتا رہ گیا۔ نہ اس سےپیسہ واپس لیا گیا اور نہ سزا دی گئی۔ اب بھی وہ دھوکہ باز خاتون باہر ہی ہے۔ پتہ لگا کہ وہ نہ صرف ایک بڑے سیاست دان کی داشتہ ہے بلکہ رہتی بھی وہ اسی کے کوٹھی میں تھی۔ اسمگل ہونے والی یہ رقم اصل میں اسی سیاستدان کی بتائی جاتی تھی (۲)عتیقہ اوڈھو، ایک اورمعروف گلو کارہ ہےجس کے سامان میں سےبھی اسلام آباد ایئرپورٹ پر شراب کی کئی بوتلیں برآمد ہوئی تھیں ۔یہ گلوکارہ بھی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی اوراس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی ۔ مگر حیرت انگیز پر وہ بھی صاف بچ کر نکل گئی۔ظاہر ہے کہ اسے یہ صاف راستہ ہمارے قانون ہی نے فراہم کیا ہوگا(۳)عزیر بلوچ قاتل ، کل جس نے دسیوں انسانوں کو صفحہ ہستی سے قبر کی جانب منتقل کیا تھا، اگرچہ اب بھی جیل میں ہے ، لیکن ایک ایک کر کے سارے مقدموں سے مسلسل بری ہو رہا ہے۔ عن قریب لو گ سنیں گے کہ یہ خونی قاتل باعزت طورپر بری بھی ہوگیا ہے تاکہ مزید قتل کےلیے دندناتا پھرے۔(۴)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے ایک مقدمے کے دوران کچھ باتیں مقتدر قوتوں کے خلاف کی تھیں تو اس پران کا ناطقہ بند کر دیا گیا ،ان کے خلاف جو ڈیشئل کونسل کے ذریعے مقدمہ بنایا گیا ،اور برطرف کردیا گیا۔ پھر جب انہوں نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تو عام مقدمات کی طرح ان کی فائل بھی بہت نیچے دبا کر رکھ دی گئی ۔ حتی کہ ۳۰جون ۲۰۲۱کو ان کی یٹائرمنٹ بھی واقع ہوگئی ۔ لیکن تاحال کوئی فیصلہ بھی نہیں آسکا ہے ۔ اگر ملک، یا کہنا چاہئےکہ عدلیہ ہی میں انصاف حکمرانی کررہا ہوتا تو ترقی پاکر جسٹس صاحب، سپریم کورٹ میں منتقل ہو چکے ہوتے۔ (۴)کراچی کی دہشت گردی کی ایک عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ کے سابق میئر کراچی اور ان کے دوسرے ذمہ داران کے خلاف آج بھی بھیانک جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے وہاں اتفاق سے ایسی جج مقرر ہوگئیں جو ان ملزموں پر سخت تھیں۔ لیکن اہم مجرموں کو یہ سختی کس طرح برداشت ہوتی ؟۔ ان کے خلاف شکایت درج کی گئی جس کے جواب میں انہیں کسی دوسری عدالت میں منتقل کردیا گیا ۔(۵) جناح اسپتال کراچی کی ایک سپر نٹڈنٹندنٹ نرس نے جب حکام ِبالا کی غیر قانونی ہدایات ماننے سے انکار کیا تو اس کی ساتھیوں اور مرد افسران کی موجودگی میں اسے بری طرح زدوکوب کیا گیا اور اس کےکپڑوں کو برسر عام تارتار کیا گیا ۔ مگر مجال ہے کہ کوئی ادنیٰ سی بھی کاروائی ظالموں کے خلاف ہوئی ہو!۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جنہیں آئے دن ہم سب دیکھتے ،پڑھتے ،اور سنتے ہی رہتے ہیں ۔
کسی بھی نیک اور محب وطن فرد کو اس قدر مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنےاصلاحی خیالات اور اقدامات سے باز نہ آئے تو صاحبان قضاو قدر، اسے غائب کردینے سے بھی باز نہیں آتے ۔پھرچاہے ہائی کورٹ زور لگا لے یا سپریم کورٹ ، وہ شخص کبھی دستیاب نہیں ہوتا۔عدالتیں چینختی رہتی ہیں مگر حکومت کے اعلیٰ افسران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اس کے بعد کا قدم ،اسے پراسرار طور پر ہلاک کردینا بھی ہوتاہے۔قصہ ختم !۔ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ آمروں اور جاگیرداروں کو کرائے کے قاتل بھی بہت آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں ۔ اس لئے ان کی طے شدہ راہوں پر نہ چلنے والوں کو دنیا سے باہر کردینا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ایک مزیدراستہ اپنے ڈھب پر لانے کا یہ بھی ہے کہ ان پر برداشت نہ کئے جانے والا سخت دبائوڈالا جائے ۔ شرپسند ، ملحد، اور دین و وطن کے غدار یہ عناصر ، محبان ِوطن و دین پر اس قدر زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ بعض اوقات ،وہ بیچارہ،اپنے بال بچوں کی مشکلات کا خیال کرنے کے باعث بالآخر تھک ہار کرکار ہتھیار ڈال ہی دیتا اورانہی کے نقش قدم پر چل پڑتاہے ۔ اول اول تو وہ نیک دل بیچارہ طوعاََو کرہاََ یہ کام کرتا ہے ۔ لیکن آخر کار وہ بھی سخت دل ہو کر بدی کی مستقل راہوں پر چل پڑتا ہے۔ا س کے تمام جوش و جذبے کچھ عرصے کے بعد بالکل ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔
بڑے بڑے شرمناک حادثے ہوجاتےہیں مگر کسی کا بال بیکا بھی نہیں ہوتا۔اس لئے کہ سزائیں ان میں سے کسی کا مقدرہی نہیں ہیں۔ آئین و قوانین کے خاموش ضابطوں میں ان کے جسم و جان کےلئےکوئی سزامقرر ہی نہیں کی گئی ہے۔ ایک سال پہلے ماڈل کالونی کراچی میں پی آئی اے کے جہاز کا گر کر تباہ اور تمام مسافروں کا شہید ہونا،ان میں سے کسی ایک کی پیشانی پربھی شرمندگی کے چھوٹے سے قطرے آپ نہیں دیکھ سکیں گے۔
مقتدرطبقوں کے حق میں عدالتوں کے مجرمانہ فیصلو ں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ حالیہ تحریک عدم اعتماد (اپریل ۲۰۲۲) کے دوران، سندھ کے ایک شادی شدہ نوجوان ’’ناظم جوکھیو ‘‘کے قاتل ایم این اے کو بھی عدالت نے ضمانت پر اچانک آزاد کردیا جو گرفتاری کے بعدسے ملک سے فرار تھا اور جس کے بارے میں سابقہ حکومت کا کہنا تھا کہ آتے ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔ لیکن کراچی پہنچتے ہی عدالت نے اسے ضمانت عطاکر دی اور ایک طویل مدت کے لے محفوظ و مامون کردیا۔ صرف اس لیےکہ عمران خان کے خلا ف اسےاپناووٹ دینا تھا۔ اس سے بڑھ کر ڈھٹائی اورکسے کہتے ہیں؟ مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ نے کہا کہ میں ان لوگوں سے کب تک لڑوں کہ لڑ لڑ کر کر میں تھک گئی ہوں۔یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح غنڈہ گردی یہاں راج کرتی اورعدلیہ فیصلے کرتی ہے؟۔ عمران خان کی حکومت کے ابتدائی دور میں اس کا ایک صوبائی وزیر، لاہور کے’’آغوش‘‘ نامی ادارے کےمسلسل دورے کرتا تھا ،عدالت کی جانب سے جہاں لڑکیاں تحفظ میں رہتی تھیں ۔ ادارے کی نگراں کو لڑکیوں کے ادارے میں صوبائی وزیر کا یوں عام آنا جاناپسند نہیں تھا۔ لہٰذااس نے احتجاج کیا اورالزام عائد کیا کہ وزیر صاحب شادیاں کرنے آتے ہیں۔ جواب میں سپرنٹنڈنٹ کونہ صرف مغلظات بکی گئیں بلکہ سیدھے سیدھےبرطرف بھی کردیا گیا۔ بعد میں انصاف کے لئے وہ در در روتی پھرتی بھی رہی مگر انصاف اس کے مقدر میں کہاںَ تھا۔وہ توصرف عتیقہ اوڈھو اور ایان علی ہی کے لئے و قف ہے۔
نظام کی چالاکیاں دیکھنی ہوں تو جانیں کہ جرم کی پرورش کس طرح ہوتی ہے۔سات سال قید کی سزا پانے والے وزیراعظم نواز شریف کی رہائی اور بیرون ملک فرار کے لیے عین اتوار کی شب لاہور ہائیکورٹ اچانک کھولی جاتی ہے جہاں سے اسے ضمانت پر رہا کرکےباسانی باہر فرار کروادیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اتنے بڑے مجرم کی ضمانت بھی صرف پچاس روپے کے اسٹیمپ پیپر پر اسی کے بھائی شہباز شریف سے لی جاتی ہے ۔ یوں دن دہاڑے انصاف کا خون کردیاگیا جبکہ حکومت ِوقت ہکا بکا منہ دیکھتی رہ گئی ۔اسی سے جُڑی ہوئی افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ بڑا مجرم،جو بعد میں ایک بار پھر معزز ہستی کہلائے گا، ملک سے فرار ہوکر تین سالوں سےعیاشی کے ساتھ لندن میں بیٹھا ملک کے خلاف مسلسل سازشیں کررہا ہے ۔ اور جب بھی اسے واپس لانے کا مطالبہ کیا جاتاہے تواس کا ڈھٹائی والا جواب ایک ہی ہوتا ہے ۔’’وہ علاج کروارہا ہے۔ ڈاکٹروں نےاسے مزید آرام کرنےاور بیرون ملک سفر سے گریز کا مشورہ دیا ہے‘‘ ۔ اس کی خاطر وہ ڈاکٹروں کی جھوٹی رپورٹیں بھی پیش کرنے سے باز نہیں آتا۔ حیرت انگیز طور پر لاہورہائی کورٹ انکھیں بند کیے ضامن سے بالکل بھی نہیں پوچھ سکی کہ وہ قومی مجرم کہاں چلا گیا ؟ نیز طریقہ کار کے برعکس، عدالت عالیہ، نے بدلے میں ضا من کو بھی قید میں نہیں لیا ۔صبح و شام وہ بھی سب کےسامنے دندنارہا ۔بلکہ الٹااسی کو ملک کا نیا وزیر اعظم مقرر کردیاگیا جسے فوج اور پولیس سب ہی مل کرسلامی دے رہے ہیں۔
ہمارےبعض ذہین طالب علم , لڑکیاں اورلڑکے،انجینیرنگ کے لحاظ سے، یا باہر کھیلوں کی دنیا میں , عالمی طور پر اگرکوئی مقبولیت حاصل کرتے ہیں , تو بدقسمتی سے وطن واپسی کے بعد انہیں یہاں پوچھا تک نہیں جاتا۔ بہت کچھ حاصل کرکے بھی وہ وطن میں اجنبی ہی رہتے ہیں۔جیسے انہوں نے کوئی کارنامہ انجام ہی نہیں دیا۔ حالان کہ ضرت اس کے برعکس رویےکی تھی ۔ ملک میں ان کی مزید عزت افزائی کی جاتی، انہیں کچھ مزیدقومی اعزازات سے نوازاجاتا، اور اہل وطن کے لیےانہیں قابل ِتقلید نمونہ بنایاجاتا۔ بااثر منفی ذہنیت والے طبقے چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ’’ کسی کے دل میں اگر ملک کے نظام کی اصلاح کا بہت جنون ہے , لوگوں کو مزید سہولتیں دینے کے عزم پر کارفرما ہے ,یا اپنےذہن میں کسی اور قسم کی اصلاح کا جذبہ رکھتا ہے , تو سوچے سمجھے ہوئےجکڑبندی کے اس سخت نظام میں ، معذرت کہ اس کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔وہ ہم سے مایوس ہی ہوگا‘‘۔لیکن پھر بھی اگرکوئی فرد باز نہیں آتا تو ہو سکتا ہے کہ پہلے توبہتر انعام اور عہدے کا لالچ دےکر اسےځاموش کردیا جائے , یا پھر اس کی فائل خراب کردی جائے , اس کاکہیں دور دراز تبادلہ کر دیا جائے ،او ایس ڈی بناکر بے حیثیت کردیا جائے ,کسی طرح اغوا کرلیا جائے , یا آخر کار قتل کرکے معاملہ سدا ہی کے لیے ختم کر دیا جائے۔کوئی سی بھی صورت ِحال، طاقت کے نشےمیں چوررہنے والوں کےلئے نئی اور شرمندگی والی نہیں ہوگی!
عمران خان کی حکومت کے ڈرامائی طورپرختم ہونے کے بعد تما م اہل پاکستان اور دنیا نے دیکھا کہ وہی لوگ جو کل تک نیب ، ایف آئی اے، رینجرز، اوراعلی ٰ عدلیہ کو مطلوب تھے اورجو سب کےسب یا تو ضمانتوں پر رہاتھے ،یا جن پر صرف ایک یا دو دن بعد ہی فرد جرم عائد ہونی تھی، وہی سنگین ملزمان پھر وزیر، وزیر اعلیٰ، اور وزیر اعظم بن چکے تھے۔ ’’لو کرلو ہمارا احتساب ؟۔ کون ہاتھ ڈال سکتاہے ہم پرَ. ہم تمہاری پہنچ سے بہت دور ہیں؟‘‘
لوٹ کر لے جانےولےحمزہ شہبازکے خلاف الزامات کی تحقیق کرنے والے جراء تمندڈائریکٹر ایف آئی اےکو ملزم نےعین اس کے منہ پر تنبیہ کی کہ نہ بھولٰیں کہ وقت کبھی بدل بھی سکتا ہے۔اور پھر یہی ہوا کہ حمزہ شبہاز ،وزیر اعلی، اوران کے والد میاں شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم بنےتو ادرون ِخانہ نہ جانے کیا کیادبائوڈالا گیاکہ موصوف کی حکومت آتے ہی خبر آئی کہ حرکتِ قلب بند ہونے سےڈائرکٹر کا انتقال ہوگیاہے۔اس سے قبل ماڈل ایان علی سے زرمبادلہ ضبط کرنے والے انسپکٹر کو بھی چند دنوں کے بعد قتل کردیاگیا تھا۔ملک کے رکھوالے ہی جب ،لٹیرے اورڈاکو بن جائیں،تو پھر کہاں کا احتساب اور کہاں کی سزا؟ کس محب وطن کو یہاں کہیں جگہ مل سکے گی؟۔ مایوس ہوکرپھر وہ یہی گانا کیوں نہ گالے تو بہتر ہے کہ’’جا۔ ا پنی حسرتوں پرآنسو بہا کے سوجا‘‘۔
صورت ِحال دن دہاڑے یہ ہوگئی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں سے باقاعدہ سزا یافتہ بڑےبڑے مجرم ,بھی جیلوں میں سڑنے کی بجائے اپنے اے سی اورویل فرنشڈ گھروں میں خدام کے ساتھ ٹھاٹ سےزندگی گزارتے ہیں ۔مزیدیہ کہ خطرناک مجرموں کو جیل میں بھاری رقموں کے عوض ،موبائل فونس تک فراہم کردیے جاتے ہیں جن کی مدد سے وہ نیٹ ورک پرباہر کی دنیا سے مسلسل مربوط رہتے ہیں ۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ایک بار اچانک کسی ہسپتال کے دورے پر پہنچے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں تو سزایافتہ مجرم م شرجیل میمن اے سی وارڈ میں دوستوں کے ساتھ گپیں کررہا ہے، اورحیرت انگیز طور پر شراب کی بوتل بھی اس کے پاس موجود پائی گئی َ۔ جسٹس صاځب نے چیک کیا تو سزایافتہ مجرم کی عیاشی دیکھ کرحیران رہ گئے۔بعد میں پی پی لیڈروں نے سارا معاملہ اس طرح تبدیل کیاکہ وہ بوتل شراب کی نہیں شہد کی بن گئی جو شرجیل کی صحت یابی کی خاطر بطورعلاج ضروری تھی ۔
اصلاحات کا بہت بڑا ذمے دار محکمہ پولیس ہے جو بنایا ہی اسی مقصد کے لئے جاتا ہے۔مگر اس کی صورتِ حال بھی سب کے سامنے ہے۔ وہاں کے قصے سب کو بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔سب عیاں ہے۔ تمام بے انصافیاں اور بگاڑاصل میں وہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ اس کے اہلکار،اچھے بھلے قوانین کا بھی حشر نشر کرکے انہیں اپنی روح سے محروم کردیتے ہیں۔ پولیس کے بعد اصلاح کا بہترراستہ اگرکہیں سے نکلتاہے تو وہ عدالتیں ہیں۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹی عدالتوں کا تو کیا سوال، اعلیٰ ترین جسٹس صاحبان کے فیصلوں پر بھی تقیدیں ٔ عام ہوگئی ہیں۔ ۲۰۲۱ سے ان جسٹس صاحبان کے فیصلے سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بن رہےہیں۔ عدالتوں میں پہلے مرحلے ہی پر ایسی ضمانتیں دے دی جاتی ہیں کہ پھر جیل یاترا کا معاملہ آتاہی نہیں ہے ۔ ضمانت دے دی جائے تو پھر آخری فیصلہ آنے تک بھی اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی۔ راستہ پھر نکلےتو کہاں سے نکلے؟۔
ملک کے نظام میں اصلاح ِ احوال کا کوئی راستہ، مکار،غلام ابن غلام، اورہوس کی ماری چھوٹی بڑی مچھلیوں کے ہوتے ہوئے بظاہر تو کہیں سے نکلتا ہوانظر نہیں آتا! حقیقت یہ ہے کہ ہر ہرمحکمے میں جان بوجھ کرگھٹا ٹوپ ا ندھیرے پھیلا ئےگئے ہیں۔ رضی الدین سید۔۰۳۳۱۔ ۲۶۴۶۱۰۹

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں