369

خرافات و گمراہی کے گڑھ شاہوں کے آستانے

تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
بتان عجم کے پجاری تمام!
یہ امت روایات میں کھو گئی

بیشک اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں ، اولیاء و صالحین کے مزارات، خانقاہیں شعائر اللہ میں سے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کریم نے اپنے نیک بندوں کے آستانوں پر فیوض و برکات رکھی ہیں اور مخلوق خدا ہر دور میں مزارات اولیاء اللہ پر حاضر ہوکر فیض پاتی رہی ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے آقا و مولا حضور سید عالم ﷺ کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر آپ ﷺ سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ، تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں ۔

تصوف جو ایک روحانی نظام ِتربیت کا نام ہے بدقسمتی سے آج اس میں بہت سے تضادات و اختلافات کی وجہ سے خرافات کی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ تصوف محض چند رسومات کی حد تک ہی رہ گیا ہے ۔ تصوف کی بنیاد جس اخلاص پر تھی آج نام نہاد صوفیاء نے اسے ریاکاری اور دکھاوے کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ جعلی پیروں نے تعویذ گنڈوں ،دم درود اور عرس منانے اور میلے لگوانے تک ہی ساری طریقت کو محدود کر دیا ہے ۔ طریقت اور تصوف صرف اس بات سے عبارت ہو کر رہ گئے ہیں کہ بیعتِ شیخ کی جائے ۔ اس کے بعد نہ شیخ کو خبر کہ میرا مرید کہاں اور کس حال میں ہے اور نہ ہی مرید کو شیخ کے حال کی خبر ، بس تصوف اور بیعت محض رسمی سی چیز بن کر رہ گئے ہیں ۔ سال بعد عرس وغیرہ کے نام پر سب مریدین کو آستانہ پر اکٹھا کر لیا، یا پیر صاحب نے مریدین کے ہاں سالانہ دو چار دورے کر لئے، نذر نیاز وصول کر کے چلے گئے ۔ اس طرح تصوف جو حب جاہ اور حب دنیا ترک کرنے کی تعلیم دیتا تھا ایک کاروبار بن کر رہ گیا ۔ تصوف و طریقت میں جانشینی اور وراثت کا تصور پیدا ہو گیا ہے اس طرح خانقاہی نظام میں بے پناہ قباحتیں ، خلاف شریعت، خلاف طریقت امورداخل ہو گئے ۔ سجادہ نشینی کا نسل در نسل نظام زوال پذیر ہوتے ہوئے عملاً یہ صورت اختیار کر گیا ہے جسے حکیم الامت یوں بیان فرماتے ہیں ۔

میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

تصوف پر ایک ظلم یہ ہوا کہ علمائے دین تعلیم و تربیت کے پہلو سے بے توجہی برتنے لگے ہیں ، تصوف کے لئے کوئی مقام نہ دینی و شرعی علوم میں رہا نہ کسی خانقاہ میں ۔ تصوف میں دوسرا بڑا فتنہ جو نام نہاد پیروں اور جھوٹے مفاد پرست دنیا دار صوفیوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اٹھایا ہے، شریعت کو مولویت کا نام دے کر بدنام کرنے کی تعلیم دی ہے ۔ ان کے نزدیک قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مولویوں کا کام ہے اولیاء و صوفیاء کا نہیں ۔ میں کئی ایسی معروف گدیوں کو جانتا ہوں کہ جن سے لوگ اگر کوئی شرعی و فقہی مسئلہ دریافت کرتے تو ان کا یہ جواب ہوتا ہے کہ ایسے مسئلے مسائل مولویوں سے پوچھا کرو ، یہ ولیوں کا کام نہیں ہے ۔ علوم شرعیہ کی اس طرح نفی کی جا رہی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید طریقت، روحانیت، معرفت، ولایت اور حقیقت کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایک عرصے سے جعلی اور نام نہاد پیروں ، آستانوں اور بد عمل مرشدوں کی بہتات ہوگئی ہے ۔ ہر گلی محلہ اور دیہات و قصبات میں کسی نہ کسی شاہ کا آستانہ دیکھنے کو ملتاہے ، بد عملی اور نت نئی خرافات یہاں سے فروغ پا رہی ہیں ۔ شاہوں کے عرسوں اور میلوں پر کیا کچھ نہیں ہوتا، وہ کسی صاحب نظر و فکر سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ شریعت و طریقت کے رہبروں ، گدی مکینوں اور خانقاہ والوں نے ہرباطل،ہر شیطان سیرت، ہر کمینہ صفت کےلئے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے کہ ہمارے میلوں ، ہمارے عرسوں پر آؤ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں ، یہاں تمہیں ہر طرح سے چرنے اور چرانے کی اجازت ہے ۔ مجھے بتائیں ایک پیر، ایک صاحب طریقت، رہبر شریعت کے میلہ و عرس پر سرکس کا کیا کام ہے؟ریچھ کتے کی لڑائی کا کیا کام ہے؟مجرے، ڈانس، دھمال ٹھیٹھر، اکھاڑے، سائیکل گراؤنڈ، ناچ راج، بھنگڑے اور خواجہ سراؤں کا کیا کام ہے؟ےہاں تو یہ حال ہے کہ جب تک پیر صاحب کے آستانے پر خسرے( خواجہ سرا) ڈانس نہ کریں اور ان کے ساتھ بد فعلی نہ ہو پیر کا میلہ و دربار نہیں سجتا ۔ جب تک دھمال، بھنگڑے، مجرے اور ڈرامے نہ لگیں پیر صاحب کے دربار کی رونق نہیں بنتی ۔ جوا، شراب،بھنگن، چرس ، حرام کاری کونسی ایسی غلط کاری ہے جو ان میلوں اور خانقاہوں پہ نہیں ہوتی ہے؟بتایا جائے کہ ایک پیر صاحب، ایک صاحب طریقت ، ایک رہبر شریعت کے آستانے پر مجرے، بھنگڑے، خواجہ سراؤں اور ڈانسر ناچنے گانے والی کا کیا کام ہے؟سائیکل گراؤنڈ، لکی ایرانی سرکس،ڈرامے، موسیقار، فنکار، ٹھیٹھر، ڈھول ، دھمال ، رقص کس مقصد کے لئے ہیں ؟شراب، جوئے، بھنگ، چرس، بد نگاہی و بد فعلی کے اڈے ، کیا کچھ بدفعلیاں اور خرافات نہیں ہوتی ہیں جن کا اسلام اور اہل اسلام سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے اور یہ سب کچھ ایک رہبر شریعت کے آستانے پر؟اُف! یہ کیسی رہبری ہو رہی ہے امت کی؟یہ کیسی طریقت اور کیسے اسلوب سیکھائے جا رہے ہیں امت کو؟یہ کیسا بدعملی اور دین سے دوری کا درس دیا جا رہا ہے؟کیا مزار والا یہ وصیت کر کے گیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میری قبر پر خواجہ سراؤں اور کنجریوں کے ڈانس کروانا،ناچ راگ کرنا، بھنگڑے اور دھمالیں ڈالنا، مجرے، ڈرامے اور ٹھیٹھر لگانا اور ہر طرح کی حرام کاری، بدفعلی اور خرافات کرنا؟جہاں بھر کی گندگی ایک پیر صاحب کے میلے پر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ یہ ایک پیر صاحب کے دربار سے زیادہ بے حیائی کے اڈے نظر آتے ہیں جہاں اجنبی مردوں کے ہجوم میں بے پردہ عورتیں گھل مل کے شیطان کےلئے راحت کا سامان باندھ رہی ہوتی ہیں اور خدا کے قہر و غضب کو دعوت دیتی نظر آتی ہیں ۔ کہاں اور کس آیت یا حدیث میں لکھا ہے کہ بے پردہ و نیم پردہ عورتیں ہجوم میں پیر کے دربار پر حاضر ہوں اور اجنبی مردوں کے ساتھ گھل مل کر دربار کی زینت بنیں ؟اللہ کریم تو قرآن میں حکم دے رہا ہے کہ

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرَّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی

وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘

’’ اور تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلےت کی بے پردگی، اور نماز قائم رکھو اورزکوۃ دو اور اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺ کا حکم مانو ۔ ‘‘ (الاحزاب33;58;33)

حدیثیں بھی کچھ اور بیان کر رہی ہیں مگر یہ باطل روایات پتہ نہیں کہاں سے ہمارے اندر داخل ہو گئی ہیں ۔ احادیث میں تو ہے کہ

’’جو عورت عطر اور خوشبولگا کر مردوں کے پاس سے گزرے تاکہ مرد اس کی طرف دیکھیں اور مائل ہوں تووہ عورت زناکار ہے اور ہر آنکھ جو اس کی طرف دیکھے وہ زناکار ہے ۔ ‘‘

(نسائی، ابن خزیمہ)

’’ انسان کی آنکھیں زناکرتی ہیں ، اس کے ہاتھ پاءوں زنا کرتے ہیں اور اس کی شرمگاہیں زنا کرتی ہیں ۔ ‘‘ مسند امام احمد)

’’نا محرم کو دیکھنا آنکھ کا زنا ہے، نامحرم سے بات کرنا زبان کا زنا ہے، نامحرم کو چھونا ہاتھ کا زنا ہے اور نامحرم کی طرف چل کر جانا قدموں کا زنا ہے ۔ ‘‘ (بخاری ومسلم شریف)

’’عورت سراپا ستر ( پوشیدہ رہنے کے قابل ہے) جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے قریب تر اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کی چاردیواری کے اندر ہوتی ہے ۔ ‘‘ (ترمذی، مشکوۃشریف)

’’عورت شیطان کے روپ میں سامنے آتی ہے اور شیطان کے روپ میں واپس لوٹتی ہے ۔ ‘‘ (مسلم شریف)

’’ جب کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا ساتھی شیطان ضرور ہوتا ہے ۔ (نامحرم مرد ،عورت کا تنہا بےٹھنا ، باتیں کرنا اورچلنا پھرنا حرام ہے) ۔ (ترمذی شریف)

’’ عورتیں اپنے محرموں کے سوا اور مردوں سے باتیں نہ کریں ۔ ‘‘ (ابن سعد)

’’عورتوں کےلئے گھر سے باہر نکلنے کا کوئی حق نہیں مگر ےہ کہ مجبور و مظہر ہوں ۔ عورتوں کےلئے راستے پر چلنے کا کوئی حق نہیں سوائے ایک طرف چلنے کے ۔ ‘‘ (طبرانی فی الکبےر )

’’ جو عورت تنہا اپنے گھر سے نکلے تو وہ اس وقت تک قہر خداوند ی کا نشانہ بنی رہتی ہے جب تک گھر واپس نہ لوٹ آئے ۔ ‘‘ (کنز العمال)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں