279

طوفان نوح علیہ السلام اور موجودہ صورت حال

رضی الدین سید کراچی

آج کل ملک کی سیلابی اور سارے مکانات اور دیہات کو بہالے جانے و نہ رکنے والی بارشوں کو دیکھئے اور پھر حضرت نوح
لیہ السلام کے وقت کے سیلاب اور بارشوں کو دیکھئے تو یہ حقیقت بہت آسانی سے سمجھ میں آجا تی ہےکہ وہ پانی آخر پہاڑ کی چوٹی تک کیسے پہنچ گیا تھا؟ ۔ اللہ نے اطلاع دی کہ ہم نے اوپر آسمان کو بھی اور نیچے تنور کو بھی پانی برسانے اور اگلنے لگا حکم دیے دیا تھا۔ شاید وہ کوئی خاص ہی تنور ہوگا جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ تنور سے تو دراصل آگ اگلتی ہے نہ کہ پانی۔لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم تھا تو ایسا ہی ہوا۔ پھر جب آسما ن سے بھی اور زمین سے بھی چار پانچ روز لگاتار اور لمحے بھر کو نہ رکنے والا پانی برستا رہے تو ، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پھر وہی حضرت نوح ؑ کے علاقے کی صورت ِ حال ہوگئی کہ ملک میں بھی بستیوں کی بستیاں بہہ گئیں اور بارہ تیرہ فٹ اونچے مکانات ، بارش کورتی برابر بھی نہ سہہ سکے ۔ سیلابی پانی لمحہ لمحہ اونچا ہی ہوتا رہا اور علاقوں میں چھ چھ فٹ اوپر تک چلا گیا۔ ٹھیک حضرت نوح علیہ السلام والی کیفیئت پیدا ہونے لگی۔اسی سے سمجھ میں آتا ہے کہ وہ سیلابی طوفان، دم بدم اور آہستہ آہستہ جودی پہاڑ تک آخر کیسے پہنچا؟ ۔
آپؑ کا نافرمان و مشرک بیٹا جسے اپنی جوانی و طاقت کا بہت زُعم تھا اور جو باپ کی محبت بھری پیش کش کے جواب میں بے بھی نیازانہ طور پر یہی کہتا رہاکہ ابا جان آپ میری فکر نہ کریں، میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر خود کو سیلاب کی بپھری ہوئی لہروں سے بچالوں گا۔ اسی مغرور و متکبر بیٹے کو اللہ نے دکھایا کہ تو نے اگر پہاڑ کی چوٹی پر خود کو محفوظ کرنے کی سو چ اپنائی ہے تو میں تجھے اسی چوٹی پر جاکر دبوچو ں گا۔ اللہ تعالی کی قدرت دیکھیے کہ نافرمان بیٹے کو تیز ترین خوف ناک ریلے میں بھی اس نے اس کے چوٹی پر پہنچنے تک ڈوبنے اور ہلاک ہونے سے محفوظ رکھا اور ٹھیک وہیں جاکر سیلاب کی نذر کیا جہاں اس نادان کو امیدِ پنا ہ تھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اسے سمجھایا بھی کہ بیٹے یہ سیلاب آج کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور اس کا پانی پہاڑ کی چوٹی تک بھی پانی پہنچ کر رہے گا۔
اس قصے میں آج بھی ہم سب کے لئے عبرت کے بہت سے پہلو ہیں۔ جب بھی اللہ اپنے غیض و غضب میں آتا ہے تو اپنے رحم و شفقت کی فطرت سے یکسر صرف نظر کرلیتا اور ہرنافرمان فرد اور قوم کو وہاں سے جا دبوچتا ہے جہاں سے خود اسے بھی گمان نہیں ہوتا۔ ‘‘توبہ۔ توبہ۔ معافی۔ معافی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور رجوع’’ ہی پھر اس کے جوش انتقام سے بچ نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت، کوئی ٹیکنا لوجی، اور کوئ سائنس بھی ہمیں اللہ کے جلال اور غصے سے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ خود کہا اس نے کہ واِنّا لمَنُتقِمون . ‘‘جان رکھو کہ آج ہم تم سے بالیقین بھرپور انتقام لیں گے’’۔ سووقت ہے کہ ہم اپنے اعمال و افعال کا دوبارہ جائزہ لیں۔ ہنسی مذاق، نافرمانیاں، مسجدوں سے دوری، اور عورتوں کی بے حیائی سے جان چھڑا ئیں کہ نافرمانی کا پانی سر سے بھی اوپر ہوچکا۔ تب ہی جاکر یہ سیلاب اور یہ طوفان ہماری جان چھوڑے گااور اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے گا۔ یہ بارشیں جو کبھی زمین کی پیداوار بڑھانے میں مدد گار ہوتی تھیں ، آج وہ فصلوں کی فصلیں کھا گئی ہے۔زمینیں زرخیز ہونے کی بجائے بنجر ہوگئی ہیں۔ تو پھر کب ہمیں ہوش آئے گا اور کب ہمیں احساس ہوگا کہ ہم اپنے پالنے والے رب کے سر تا پا نافرمان بنے ہوئے ہیں؟
رضی الدین سید
۲۶۴۶۱۰۹۔۰۳۰۰

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں